شہری سیلاب کے باعث ڈوبتا ہوا کراچی

شہری سیلاب کے باعث ڈوبتا ہوا کراچی
اہلیان کراچی کے لیے شدید گرمی کے موسم میں بارشوں کی نوید مسرت و انسباط کا باعث ہوتی ہے اور وہ مون سون کے موسم کے منتظر رہتے ہیں۔ جب ابر آلود آسمان اور ہلکی ہوائیں آنے والی تیز بارش کی آمد کا اشارہ دیتی ہیں تو ایسے میں ہر شخص جھوم اٹھتا ہے۔ بات یہیں تک ہوتی تو کیا خوب ہوتا، مگر ساتھ ہی یہ فکر و پریشانی ہر شخص کو گھیرے میں لے لیتی ہے کہ اس بارش کے سبب کس کس نوعیت کے نقصانات اور تباہ کاریاں وقوع پذیر ہوں گی۔ کیونکہ کراچی میں ہر مون سون کے دوران 'شہری  سیلاب' آنے کا امکان یقینی ہوتا ہے، جس سے کئی علاقے زیر آب آنے کے ساتھ ساتھ معمولات زندگی شدید متاثر ہوجاتے ہیں جبکہ شہر میں ٹریفک کا نظام تقریباً مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔

یہی صورتحال موجودہ وقت میں بھی ہے کیونکہ محکمہ موسمیات نے 3 جولائی 2020 کو کراچی اور سندھ کے کئی دیگر شہروں میں شہری سیلاب سے متعلق انتباہ کیا ہے کیونکہ آئندہ ہفتے صوبے کے متعدد علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش متوقع ہے، جس کے باعث کراچی کو شہری سیلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ساتھ ہی محکمہ موسمیات نے تمام متعلقہ حکام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ "چوکس" رہیں اور متوقع بارش کے دوران کسی بھی بدقسمت واقعے سے بچنے کے لئے قبل ازوقت احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ مگر سوال یہ ہے کہ سارا سال خواب غفلت میں گزارنے والے حکام اس قلیل مدت میں کیا کر سکیں گے؟

پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ شہری سیلاب کب آتا ہے؟ شہری سیلاب اس وقت آتا ہے جب ایک مختصر مدت میں مسلسل اور تیز بارش سے شہر کی نکاسی آب کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے پیچھے متعدد عوامل کار فرما ہوتے ہیں کیونکہ مختصر عرصے کے دوران شدید بارش کے باعث مٹی پانی سے لبریز ہو کر سیراب ہوجاتی ہے اور اس کے اوپر پانی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے، جبکہ ندیوں کے کنارے اور سیلاب کے میدانی علاقوں پر آبادیاں یا دیگر تعمیرات بھی شہری سیلاب کے عوامل میں سے ہے۔ اس کے علاوہ نالوں پر تجاوزات، نالوں میں کچرا اور گندگی پھینکنا، اور کھلی جگہوں، کھیل کے میدان اور پارک کی عدم دستیابی بھی شہر میں سیلاب کا موجب ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا تمام عوامل کی وجہ سے ہر سال شہر کراچی ہمیں ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی کیفیت اس وقت بھی نظر آرہی ہے کیونکہ  صوبائی و شہری انتظامیہ کی جانب سے تاحال شہری سیلاب سمیت بارشوں کے اثرات  سے بچاؤ کے کوئی  واضح اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ جبکہ پچھلے سال ہونے والی طوفانی بارشوں کا سلسلہ کراچی کے مکینوں کے لیے کسی آزمائش سے کم نہیں تھا- نہ صرف شہر کا بیشتر حصہ تعطل کا شکار تھا بلکہ شہر کے کئی علاقے زیر آب آ گئے تھے، جس کے باعث شہر میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔

'مرے کو سو درے' کہ بارشوں کے بعد کرنٹ لگنے سے  کئی افراد  ہلاک ہوئے تھے۔ کازوے میں طغیانی کی وجہ سے کورنگی کے علاقے کا رابطہ شہر کے باقی حصوں سے کٹ گیا تھا اور کورنگی کازوے پر پھنسے افراد کو کرین کی مدد سے نکالا گیا تھا۔ مگر شاید ایک سال کے عرصے میں کراچی کے باشندے پچھلے سال ہونے والی ان  سیلابی تباہ کاریوں کو بھلا بیٹھے ہیں جبکہ انتظامیہ نے  بھی صفائی کے انتظام اور ناقص انفراسٹرکچر کو بہتر کرنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

شہر کراچی میں نکاسی آب ایک ایسا معاملہ بن گیا ہے، جس کا کوئی خاطر خواہ حل نظر نہیں آتا کیونکہ  شہری و صوبا ئی حکومتیں اس کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس شہر میں برساتی نالوں اور سیوریج کے نظام کو یکجا کردیا گیا ہے، جبکہ برساتی نالے اور سیوریج دو علیحدہ نظام ہونے چاہئیں۔ آزادی کی پہلی چند دہائیوں میں، کراچی میں نکاسی آب کا ایک موثر نظام موجود تھا جس میں قدرتی نالے بارش کا پانی لے کر لیاری اور ملیر ندی تک پہنچاتے تھے جو بعد ازاں سمندر میں شامل ہو جاتا تھا۔ یہ ماضی کے اس دور کی بات ہے کہ جس وقت جبکہ برساتی نالے اور سیوریج  دو علیحدہ نظام تھے   اور شدید بارشوں کے باوجود بھی شہری سیلاب کا کوئی خدشہ نہ ہوا کرتا تھا۔

اس وقت شہر کراچی میں41 بڑے برساتی نالے ہیں اس میں سے 25 نالے لیاری ندی میں گرتے ہیں اور 9 نالے ملیر ندی میں گرتے ہیں جبکہ 7 نالے  سیدھے سمندر میں گرتے ہیں۔ برساتی نالوں کا مروجہ طریق کار یہ ہے کہ عام دنوں میں یہ خشک ہوں اور بارش کے دنوں میں یہ کارگر ہوں اور بارش کے پانی کو بلا رکاوٹ سمندر تک پہنچا سکیں۔ ان تمام بڑے برساتی نالوں کی صفائی بلدیہ عظمیٰ کراچی (کے ایم سی) کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح 510 چھوٹے  نالے شہر کراچی میں موجود ہیں، جن کی صفائی بلدیہ عالیہ کراچی شرقی، غربی، وسطی، کورنگی، ملیر اور جنوبی  کی ذمہ داری ہے۔

مگر شہر کراچی کی بدقسمتی کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی نااہل انتظامیہ نے شہر کے سیوریج کے نالوں کو برساتی نالوں میں ڈال دیا اور سیوریج نالوں کی صفائی اور بہتر کارکردگی سے متعلق اپنی ذمہ داریاں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سر منڈھ دیں، جس کے باعث برساتی نالوں کے مضبوط سلسلے کے باوجود آج ہم شہری سیلاب اور بارش کی دیگر تباہ کاریوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ چونکہ کراچی کے بیشتر اضلاع میں کچرے کو اٹھانا اور تلف کرنا       سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کی ذمہ داری ہے مگر وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں جس کے سبب روشنیوں کے شہر کراچی کو لوگ 'کچراچی' کا نام دینے لگے ہیں اور کراچی کا 40 فیصد کچرا انہی نالوں کی زینت بن جاتا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اداروں میں اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ شہر کی نکاسی آب کو بہتر بنا کر اس کی نگرانی کرسکیں اور برساتی پانی کی گزرگاہوں پر تعمیرات سے متعلق بے ضابطگیوں کی نشاندہی کرسکیں۔ کیونکہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور رابطے کا فقدان ہے۔ اس ضمن میں شہریوں کی زندگی کو محفوظ بنانے کے لیے متعدد بنیادی اقدامات درکار ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

  • برساتی نالوں اور سیوریج کے نالوں کو علیحدہ کرنا

  • شہر کے کچرے کی تلفی کے لیے جامع منصوبہ بندی

  • نشیبی اور پانی کے بہاؤ کے علاقوں کی نشاندہی کرنے والے جدید نقشے تیار کرنا

  • برساتی پانی کی گزرگاہیں بنانا اور ان کی کارکردگی کو جانچتے رہنا

  • نالوں پر اور ندیوں کے کناروں، برساتی پانی کے نکاس کے راستوں پر غیر قانونی تعمیرات روکنا

  • نشیبی مقامات پر تعمیر رہائشی آبادیوں کی  کسی دوسرے مقام پر آباد کاری

  • شہر کے پھیلاؤ کے مطابق سیلاب پر قابو پانے کے لئے انفراسٹرکچر کی توسیع

  • انفراسٹرکچر منصوبوں کا ڈیزائن بناتے ہوئے بارش کے پانی کی نکاسی کی ضروریات کو مد نظر رکھنا

  • شہر کی مرکزی شاہراؤ ں پر پانی کی نکاسی کا معقول بندوست

  • سپر ہائی وے اور نادرن بائی پاس پر  ’کل ورٹس‘ یعنی زیرِ سڑک نالیاں بنانا

  • برساتی پانی کی نکاسی کے لیے پانی کی پمپنگ کے دوران بلا تعطل بجلی کی فراہمی

  • کچی زمین کا خاص تناسب جو پانی کی مخصوص مقدار جذب کر لے

  • نکاسی آب کے نظام میں سرمایہ کاری

  • ملیر ندی پر ملیر ایکسپریس وے کے قیام کی بجائے ملیر ندی کی کارکردگی کو بہتر کرنے کی منصوبہ بندی

  • پانی کو جذب کرنے کے لیےفٹ پاتھوں میں کھلی جگہیں چھوڑنا


اسی طرح طویل مدتی بنیادوں پر شہری سیلاب سے تحفظ اور نالوں کی صفائی سے متعلق ایک جامع اور مربوط حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ حکمت عملی کو زیرغور لاتے ہوئے حفاظتی معیارات کو مرتب دیا جائے۔ ایمرجنسی بنیادوں پر نالوں سے ریت، مٹی اور گندگی نکالی جائے اور ان کی چوڑائی کو بحال کیا جائے اور سیوریج کے پانی کو سمندر میں پھینکنے سے پہلے اسے ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزارا جائے۔

علاقائی سطح پر شہریوں کی جانب سے کچرے کو نالوں میں پھینکنے سے متعلق واقعات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی سرگرمیاں بغیر بلا روک ٹوک شہری علاقوں میں پھیل چکی ہیں۔ اگر سالڈ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ضابطوں کے مطابق کچرے کا انتظام کرے تو ایسی  سرگرمیوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے