کرونا وائرس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ چین کے شہر ووہان میں گذشتہ سال کے اختتام پر پھیلنا شروع ہوا تھا مگر اب مسلسل ایسے شواہد سامنے آرہے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے ہی یہ وائرس دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل چکا تھا۔ اٹلی، فرانس اور امریکہ میں سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ وائرس ووہان سے پہلے دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوا تھا۔
برطانوی سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا وائرس گذشتہ سال کے آخر میں پھیلنا شروع ہوچکا تھا اور ابتدائی کیسز کے بعد یہ بہت تیزی سے پھیل گیا۔ اس تحقیق کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا بلکہ آن لائن جاری کیا گیا ہے۔ تحقیق کے دوران دنیا بھر کے کووڈ 19 کے 7600 کیسز کے جینوم دیکھنے کے بعد نتیجہ نکالا گیا کہ یہ وائرس کم از کم گذشتہ سال سے پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔
لندن کالج یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ وائرس بدل رہا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بدترین ہوتا جارہا ہے۔ سائنسدانوں نے مختلف اوقات اور مقامات کے نمونوں کو دیکھنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ اس وائرس نے 2019 کے آخر میں لوگوں کو متاثر کرنا شروع کردیا تھا۔
اٹلی اور فرانس کے محققین نے حالیہ ہفتوں میں دریافت کیا تھا کہ یہ وبا ان کے ممالک میں پہلے مصدقہ کیس سے کم از کم ایک ماہ پہلے پھیلنا شروع ہوچکی تھی۔ ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کے مطابق پیرس سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر نے دعویٰ کیا تھا کہ ممکنہ طور پر فرانس میں کرونا وائرس دسمبر 2019 میں ہی شروع ہو چکا تھا۔ فرانس نے جنوری 2020 کے آخر میں اپنے ہاں پہلے کرونا وائرس کیس کی تصدیق کی تھی اور فرانس وہ پہلا یورپی ملک بنا تھا جہاں کرونا کی تصدیق کی گئی تھی اور یورپ میں کرونا وائرس سے پہلی موت بھی فرانس میں ہی ہوئی تھی۔
مارچ کے اختتام پر میلان یونیورسٹی کے وبائی امراض کے ماہر پروفیسر ایڈریانو ڈیسرلی نے کہا تھا کہ اٹلی کے خطے لمبارڈی اور میلان کے ہسپتالوں میں نمونیا اور فلو کے شکار افراد میں نمایاں اضافہ گذشتہ سال اکتوبر سے دسمبر کے دوران دیکھا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی درست اعدادوشمار تو نہیں دے سکتے مگر 2019 کے آخری سہ ماہی کے دوران ہسپتالوں میں ایسے کیسز کی تعداد معمول سے کہیں زیادہ تھی جن میں مریضوں کو نمونیا اور فلو جیسی علامات کا سامنا تھا اور کچھ کی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔
اسی طرح امریکہ میں ایک پوسٹمارٹم سے معلوم ہوا تھا کہ کووڈ 19 کی پیچیدگیوں سے ہلاکتیں پہلی آفیشل موت سے کئی ہفتے پہلے ہوچکی تھیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں 2 افراد کی لاشوں کے معائنے سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ دونوں فروری کی ابتدا اور وسط میں کرونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے، اس سے پہلے مانا جا رہا تھا کہ امریکہ میں اس وائرس سے پہلی ہلاکت 29 فروری کو ہوئی تھی۔
برطانوی تحقیق میں شامل سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ 10 فیصد عالمی آبادی یا 76 کروڑ افراد اس وائرس کا شکار ہوچکے ہیں جبکہ مصدقہ کیسز ابھی 38 لاکھ سے زیادہ ہیں۔ محققین کا کہنا تھا کہ یہ وائرس حال ہی میں نمودار ہوا ہے اور نتائج سے سابقہ اندازوں کی تصدیق ملتی ہے کہ 2019 کے آخر میں یہ چمگادڑ سے کسی اور جانور اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بہت زیادہ پہلے کی بات نہیں، ہم بہت زیادہ پراعتماد ہیں کہ یہ گذشتہ سال کے آخر میں ہوا اور دنیا بھر میں اس میں آنے والی تمام تبدیلیاں بھی ملتی جلتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ لگ بھگ ناممکن ہے کہ کسی ملک میں اس وائرس کے پہلے مریض کو تلاش کیا جاسکے کیونکہ یہ یورپ اور امریکہ میں پہلے مصدقہ کیس سے کئی ہفتے یا مہینوں پہلے ہی پھیل چکا ہوگا۔
اپریل میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا ممکنہ طور پر گذشتہ سال ستمبر کی وسط میں پھیلنا شروع ہوئی تھی اور چین کا شہر ووہان سے اس کا آغاز نہیں ہوا۔