گذشتہ دنوں کراچی یونیورسٹی میں ایک وین پر خودکش حملہ ہوا جس میں سوار تین چینی اساتذہ سمیت متعدد ہلاکتیں ہوئیں اور اس خودکش حملے میں بلوچ عسکریت و علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی طرف سے اس کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
خود کو اڑا دینے والی حملہ آور کی شناخت ایک نوجوان خاتون شری بلوچ کے ہونے کے باعث اگرچہ ملک بھر اور ملک سے باہر بھی ملکی امور میں عام طور پر اور بلوچوں اور بلوچستان میں خاص طور دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں ایک بحث، سنسنی اور ہیرو ازم اور اینٹی ہیرو ازم کو بھڑکا دیا ہے۔ لیکن بلوچ عسکریت پسند گروپوں اور سیاست کی اندرونی کہانیاں جاننے والے اسے کچھ اور زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔
ایسی اندرونی کہانیاں جاننے والے جانتے ہے کہ شری بلوچ کے حملے سے ایک بات تو عیاں ہے کہ یہ کسی بھی گوریلا نیم گوریلا لڑائی میں عورت کا استعمال یا استحصال نہایت ہی کمزور سٹریٹجی یا حکمت عملی ہے۔ بلوچ جدوجہد کے ماضی اور حال پر گہری نظر رکھنے والے باخبر افراد کا کہنا ہے کہ ایک خاتون کے ذریعے خود کش حملہ اس بات کو چھپا نہیں سکتا کہ بلوچ لبریشن آرمی جیسی تنظمیوں کو افراد کی بھرتی میں بڑا مسئلہ ہے۔ اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔
بلوچ لبریشن آرمی جیسے عسکریت پسند گروپ ساحلی بلوچستان سمیت اپنے علاقوں میں تیزی سے اثر و نفوذ کھو رہے ہیں۔ پاکستانی فوج اور ایجینسیوں کے بلوچستان کے شورش زدہ و غیر شورش زد علاقوں میں آپریشن اور خود بی ایل اے جیسی تنظیموں میں اندر کی لڑائی اور عام بلوچوں یا غیر مسلح و پر امن آبادیوں میں خوف و دہشت، دھونس دھمکیوں نے بی ایل اے کی افرادی قوت کو کمزور کیا ہے۔
بی ایل اے جیسے عسکریت پسند گروپوں کی آپس کی لڑائیوں کی بہت ساری مثالوں میں سے ایک بڑی مثال خود کچھ عرصہ قبل افغانستان میں بی ایل اے سربراہ اسلم بلوچ کا قتل ہے۔ کہتے ہیں کہ اسلم بلوچ کو اپنے ہی ساتھیوں کی مخبری پر پاکستانی ایجینسیوں نے افغانستان میں ڈھونڈ نکالا تھا جو کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کا مبینہ ماسٹر مائنڈ بتایا جاتا ہے۔ افغانستان پر طالبان کے قبضے سے قبل اور بعد میں بی ایل اے سمیت پناہ لیے دیگر بلوچ عسکریت پسندوں کے درمیان چپقلش اب کھلا راز ہے۔ مذکورہ معاملات کی اندرونی کہانیاں جاننے والوں کا کہنا ہے کہ بی ایل اے و دیگر عسکریت پسند گروپوں کی قیادت کی طرف سے 'غیر ملکی' یا بھارتی ایجنڈا کو من و عن قبول کرنے پر ان گروپوں میں شامل ہونے والے یا کام کرنے والے نوجوانوں میں مایوسی اور ناراضگی پائی جانے لگی تھی۔ دوسری ایک بڑی وجہ پاکستانی فوج اور اس کی ایجینسیوں یا غیر ریاستی، مخالف مسلح گروہوں یا ڈیتھ سکواڈز کی طرف سے کارروائیوں میں کافی جانی نقصان اور کئی عسکریت پسندوں کے والدین اور گھر والوں تک کی گمشدگیاں ہیں۔ ان گروپوں میں بھرتی ہو کر جانے والے کئی عسکریت پسند نوجوان سمجھتے تھے کہ اختلافات اور حکم عدولی پر ان کے ساتھیوں کو مروانے، ان کو اور ان کے عزیز اقارب کو غائب کروانے میں بھی کچھ کیسوں میں قیادت کا ہاتھ تھا۔
افغانستان میں اسلم بلوچ کے قتل کے بعد بی ایل اے کی قیادت اس کی جگہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن (بی ایس او) کے کبھی سابق صدر بشیر زیب کو ملی ہے۔ بشیر زیب بی ایل اے کی صفوں میں کافی 'ڈان کیوٹے' ٹائپ کردار سمجھا جاتا ہے۔ ایک جلاوطن بلوچ صحافی کا کہنا ہے کہ غیر جنگی ماحول میں بھی ہر وقت کمانڈو جیکٹ زیب تن کیے بشیر زیب کو جب پہلی بار انہوں نے ان کے اخباری دفتر میں دیکھا تھا تو اس نے خود کہا تھا کہ اب ان کے صحافیانہ بلوچ بیانیے کی ایسی کی تیسی ہو جائے گی۔ بشیر زیب خود بھی بی ایس او کے صدارتی انتخابات میں نہ فقط دھاندلی بلکہ تنظیم کے اندر مخالفین کو دھونس دھمکیوں سے جیتا تھا۔
بی ایل اے کے بشیر زیب کے ہاتھوں کمان و قیادت سنبھالنے پر بی ایس او کو اس کی سرگرمیوں والے علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ بھرتیوں کا ہے۔ اس کی تین مذکورہ بالا وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے بلوچ نوجوان اگر آزادی پسند، علیحدگی پسند بھی ہوں تو وہ ان کے بیانیے کے اثر میں نہیں آ رہے۔ کچھ کو تو بقول اندر کی کہانیاں جاننے والوں کے انہوں نے خود مروایا ہے۔
تصور کریں کہ ساحلی بلوچستان جہاں سرداری نظام نہیں بلکہ محنت کش و متوسط طبقوں کی آبادی ہے وہاں یہ نئے وار لارڈز کب تک اپنی سرداری چلا سکتے ہیں، وہ بھی 'آزادی' کے نام پر!
یہی وجہ تھی کہ اس دفعہ بی ایل اے کو خودکش کارروائی کے لئے خاتون شری بلوچ کا انتخاب کرنا پڑا۔
جب میں نے خود ساختہ جلاوطن لیکن ہمہ وقت باخبر ذرائع سے پوچھا کہ ایک نیچرل سائنس کے سبجیکٹ میں ماسٹرز اور ایم فل خاتون شری بلوچ جیسے لوگوں نے بی ایل اے کی عسکری صفوں میں شمیولیت آخر کیوں اختیار کی؟ تو ان کا جواب تھا: "بی ایل،اے کو شری بلوچ جیسی خواتین کی ان کی ڈگریوں کے ساتھ ایک لاش چاہیے تھی۔ اس سے قبل ان ذرائع کا کہنا ہے کہ 'وہ اسلام آباد یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نوجوان شہداد بلوچ کو پہاڑوں پر بھیج چکے ہیں۔ شہداد بلوچ کو قلات ڈویژن میں دشوار اور خطرناک ترین علاقے منگوچ وغیرہ میں بھیج چکے ہیں جہاں خود بڑے بڑے عسکریت پسند کمانڈروں کی ٹانگیں کانپتی ہیں' یعنی کہ 'کانپیں ٹانگتی' ہیں۔
کلاسک بلوچ بہادری کی داستانوں والے نام سے جانے والے شری بلوچ ہو کہ شہداد بلوچ، بی ایل اے کو محض ان کی لاشیں درکار ہیں جن پر ان کی قیادت اپنے 'ڈونرز' کو بہ باور کرا سکیں کہ 'جنگ جاری ہے'۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ بی ایل اے سمیت بلوچ عسکری گروپوں کو پسپائی پر پسپائی اور لاشوں پر لاشیں مل رہی ہیں تو انہوں نے پہاڑوں کے بجائے نام نہاد 'شہری گوریلا وار فیئر' کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ پر ان 'شہری وار فیئر گوریلوں' کا ٹارگٹ یا ہدف غیر مسلح دشمن یا نہتے شہری ہیں۔
کیا اس سے پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا ہے؟ ایک غیر بلوچ لیکن بلوچ ہمدرد سینیئر تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ 'کچھ بھی نہیں اور کبھی بھی نہیں'۔ اسی طرح بلوچ خود ساختہ جلاوطن حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے عام بلوچ مردوں اور عورتوں کی زندگیاں مزید اجیرن بن جائیں گی۔ اور ریاستی آپریشنز میں تیزی آئے گی۔ اس طرح کی خودکش کارروائیاں اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے کو مزید تقویت پہچائیں گی۔ پرامن بلوچ حقوق کی سیاسی و سماجی اور انسانی حقوق کی تحاریک، پھر وہ گمشدہ لوگوں کی بازیابی کے لئے وائس آف بلوچ مِسنگ پرسنز ہو کہ اسلام آباد اور لاہور میں بلوچ طلبہ کے احتجاج یا حال ہی میں کوئٹہ، گوادر، چاغی میں پرامن پر ہجوم سیاسی دھرنے اور احتجاجی اجتماعات جن میں بلوچ خواتین کی غیر معمولی شمولیت رہی، ان سب کو ان سرگرمیوں سے زبردست زچ پہنچے گی۔
سوال یہ ہے کہ بی ایل اے یا دیگر عسکریت پسند گروپوں کی ساخت و سرگرمیاں اپنی جگہ لیکن شری بلوچ ہو کہ شہداد بلوچ جیسے پڑھے لکھے بلوچ نوجوان، آخر کیوں ایسے گروپوں میں شامل ہوئے؟
میرے اس سوال پر میرے باخبر ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈگریوں کی بہتات سے کوئی گرامشی یا فینن نہیں بن جاتا۔ بلوچستان میں تو ایسی ڈگریوں کا حصول عام بات ہے۔ لیکن اصل تشویشناک بات بلوچستان میں خصوصاً بلوچ نوجوانوں میں زندگی کی بے معنویت کا احساس ہے جو شدید سے شدید تر ہو رہا ہے اور عام ہے۔ بلوچوں کی اکثریت ریاست پاکساتن سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ شاذ ہی کوئی بلوچ ملے گا جو واقعی ریاست کا حامی یا اس سے کوئی لگائو رکھتا ہو۔
کب تک محض بندوق کی نال اور جبری گمشدگیوں کے ذریعے بلوچوں کو ریاست کا وفادار رکھا جا سکتا ہے؟
آخری بار بلوچ نوجوان اگر ریاست یا وفاق پاکستان سے قربت رکھتے تھے تو وہ 1990 کی دہائی تھی جب 1988 کے عام انتخابات کے نتائج میں بلوچستان میں ڈاکٹر حئی بلوچ کی بلوچ نیشنل یوتھ موومنٹ یا بی این وائی ایم اکثریت سے کامیاب ہو کر آئی تھی اور اکبر بگٹی کی سربراہی میں عطا اللہ مینگل کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی۔ یہی علاقہ جو اب ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف اور بڑی حد تک بی ایل اے کی کارروائیوں کا مرکز ہے اور قلات کے کچھ علاقوں اور بلیدہ وغیرہ میں 1988 کے انتخابات میں بی این وائی ایم اکثریت میں سیٹیں جیت کر آئی تھی۔ یہاں تک کہ ان کے ایک امیدوار (شاید منظور گچکی) کے ہاتھوں جید قومی رہنما و مدبر سیاستدان غوث بخش بزنجو، جنہیں بلوچ 'بابائے استمان' (یعنی بابائے وطن) کہا کرتے تھے شکست کھا گئے۔
اکبر بگٹی کی بی این یو وائی ایم کے ساتھ مخلوط حکومت میں ساحلی بلوچستان کا ہر پڑھا لکھا بلوچ نوجوان سمجھتا تھا کہ کم از کم اسے اسسٹنٹ انجنیئر (ایس ڈی او) یا تحصیلدار کی نوکری ملنی چاہیے اور بہت سے بلوچ نوجوانوں کو ملی بھی۔ حکومت میں شامل وزرا کی بدعنوانیوں کی خبریں بھی بڑی گردش میں تھیں۔
ان دنوں مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی جب 1993 کی اسی مئی کے مہینے میں نے ساحلی بلوچستان کا سفر کیا تھا۔ یہی تربت، گوادر، پسنی، جیونی میں بلوچ نوجوان نواز شریف کی پیلی ٹیکسی اور یہاں تک کہ ماہی گیر بھی نواز شریف کی پیلی کشتی یا لانچ سکیم کی باتیں کرتے تھے۔ پھر بعد کی کی حکومتوں میں مرکز گزیدہ نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی گئی۔
1998 میں چاغی میں ایٹمی دھماکوں کے لئے یہ مہشور ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے بھی اس کی خبر بی بی سی پر سنی۔ ریاست سے بلوچ بیگانگی زندگی سے بے معنویت کی حد تل بڑھتی گئی۔ بلوچ جلاوطنوں کے یورپ میں باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ بلوچستان ہو کہ ملک کے باہر یہ بیگانگی اور زندگی کی بے معنویت کی ایک مثال خود سوئیڈن میں صحافی ساجد بلوچ اور کینیڈا میں نوجوان بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کی پراسرار حالات میں اموات ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ بلوچ مسلح شورش یا کسی بھی دہشتگرد کارروائی میں پہلی بار خودکش حملے میں ایک خاتون حملہ آور ہو کے خود کو اُڑاتے دیکھی گئی ہے۔ کوئی اسے بلوچ لڑکی اور بلوچ مسلح عسکریت پسندی کا کھڑاک کہہ رہے ہیں تو کوئی اسے بڑی سورما۔ لیکن ایک بات تو صاف عیاں ہے کہ بی ایل اے کو بھرتی میں مشکلات ہیں اور ایک خاتون کا اس میں استعمال ان کی کمزور حکمتِ عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ بلوچ حقوق کی تحاریک میں خواتین کے استحصال یا استعمال کا ذکر کوئی نیا نہیں ہے۔ 1960 کی بلوچ شورش جہاں بلوچ سرماچار پہاڑوں پر گئے تھے اس کا فوری محرک ایک نام نہاد سیاہ کاری یا غیرت کے نام پر قتل کیس میں مقتول ایک بلوچ خاتون کا خون آلود لباس چکاس کے لئے اس وقت کی حکومت کی طرف سے لیبارٹری کو بھیجنا تھا۔ 2005 میں سوئی بلوچستان کے پاکستان پیٹرولیم کے ہسپتال میں سندھی ڈاکٹر شازیہ خالد کے ساتھ ریپ جس کے خلاف رد عمل میں بگٹی قبائل اور ریاستی سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان مسلح جھڑپیں ہوئیں کیونکہ ریپ کا ملزم فوج کا ایک کیپٹن بتایا گیا تھا، اور ماضی قریب میں کینیڈا میں کریمہ بلوچ کی پراسرار حالات میں موت اور اب شری بلوچ۔ بہرحال بلوچ سماج میں عورت کا اس طرح نکل کر آنا اور پھر مارنا مرنا پہاڑوں کی اپنی جگہ سے ہل جانے والی بات ہے۔ جو کہ بہرحال غلط یا برابر بلوچ لوک داستانوں کا حصہ بن جائے گی۔
شری بلوچ کون تھی؟
شری بلوچ کچھ عرصہ قبل سوئیڈن میں پراسرار حالات میں گم ہو کر بعد میں مردہ حالت میں دریافت ہونے والے جلاوطن صحافی ساجد بلوچ کی کزن اور سوئیڈن میں ہی 1970 کی دہائی سے خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے صدیق آزاد بلوچ کی بھانجی تھی۔ صدیق آزاد بلوچ 1970 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کوئٹہ پر خبریں پڑھا کرتا تھا اور ایک دن خبریں پڑھ کر مکمل کرنے کے بعد اس نے یہ اعلان کیا کہ چند لمحے قبل اس نے جو کچھ خبریں پڑھیں، وہ جھوٹ کا پلندہ تھیں۔