تعلیم بلوچ طلباء کے لیئے نا ممکن کیوں؟

تعلیم بلوچ طلباء کے لیئے نا ممکن کیوں؟
ملک کے چوالیس فیصد رقبے پر مشتمل سب سے بڑے صوبے کی اہمیت بس اتنی ہے کہ یہاں زیر زمین بے شمار معدنیات اور قیمتی سمندر ہے جہاں سے سی پیک پروجکٹ نکلتا ہے، بی بی سی اردو کے ایک سروے میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دارلحکومت کے لوگ بلوچستان کے دو سے زائد شہروں کے نام تک نہیں جانتے۔

ملک کے مین اسٹریم میڈیا کی نظر میں سارا پاکستان محض ڈی ایچ اے اور کلفٹن ہے، بحریہ ٹاؤن سے میڈیا کی سانسیں چلتی ہیں اور باقی پوری آبادی اور ان کے مسائل صحافتی اقدار اور خبر کی ویلیو پانچ ڈبلیو اور ایک ایچ پر پورا نہیں اترتی اس لیئے وہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہی حال ملکی اعلی تعلیمی ادارہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا ہے جہاں کے اعلی افسران، ریاستی اداروں کے اہم منصبوں پر تعینات برہمن پاکستانی اور ایلیٹ کلاس اشرافیہ کے بچے ہی صرف پاکسانی طالب علم تصور کیئے جاتے ہیں، ایسے میں اگر باقی اچھوت پاکستانی بچے طالب علم تصور نہیں کیے جاتے تو بلوچستان کا کسی کھاتے میں نہ آنا بالکل بھی حیرانی کی بات نہیں۔

کرونا وباء کے پیش نظر ریاست کے تعلیمی اداروں نے اپنے پچیس سو خاندانوں کے بچوں کے لیئے آن لائن کلاسز کا حکم دے دیا۔ یہ فیصلہ کرتے وقت چوالیس فیصد رقبے پر مشتمل صوبہ بلوچستان کا نقشہ ایسے دیکھا گیا ہوگا جیسے یہاں صرف خشک پہاڑ اور کہیں کہیں نایاب نسل کے جنگلی حیات پائے جاتے ہیں اور بس۔ ملکی جامعات میں یہاں سے نکل کر جانا کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟ یہاں تو سردار تعلیم کے خلاف ہیں، یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آن لائن کلاسز کا مسئلہ ہو۔ بس اسی سوچ کو عملی جامہ پہنا کر پورے صوبے کو نظر انداز کرکے آن لائن کلاسز کا آغاز کردیا گیا۔

آن لائن کلاسز پر شدید احتجاج کیا گیا، ملکی میڈیا کو افریقہ کی جنگلوں میں چھپے یہ طالب علم مظاہرین دکھائی نہیں دیئے اور اشرافیہ جو ملک کو چلا رہے ہیں ان کی نظر میں یہ جاہل صوبے کے لوگ پڑھ کر کیا کرینگے؟ اور نظر انداز کردیا گیا۔ یہ احتجاج جاری تھے کہ کراچی یونیورسٹی کی طالب علم حیات بلوچ کو تربت میں بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا اور ان کے قتل کی وجہ ان کے جیب میں لٹکا وہ قلم تھا جس نے اسے مشکوک کردیا اور مارا گیا ورنہ ان کے ساتھ چار پانچ اور بھی لوگ موجود تھے جونکہ ُحلیے سے طالب علم نہیں لگ رہے تھے اس لئے بچ گئے۔

بلوچ طالبعلم ہونا اس قدر مشکوک عمل ہے کہ بلوچستان کے لاکھوں لاپتہ افراد میں سے اکثریت طالبعلموں کی ہے۔ کرونا وباء میں جامعات نے نئے داخلوں کا اعلان کیا تو وہ سرگرم طالب علم دوبارہ اپنی اپنی جامعات گئے تاکہ دور دراز بلوچستان کے طالبعلموں کو مختلف ڈپارٹمنٹس اور داخلوں سے متعلق آگائی فراہم کی جائے اور ان کی رہنمائی کرسکیں مگر بہاالدین زکریا  یونیورسٹی ملتان کے طالب علموں کو اس وقت دھچکا لگا جب انھیں پتہ چلا کہ کرونا تعطیلات کے اندر بلوچستان کے لئے 160 طالبعلموں کا کوٹہ بغیر کسی نوٹس کے بند کردیا گیا ہے اور یہی حال اسلامیہ میڈیکل کالج بہالپور کا بھی ہے۔

پچھلے کئی دنوں سے یہ مسافر طالب علم جنھیں بلوچ والدین اس لیئے بلوچستان سے باہر بیجھتے ہیں تاکہ محفوظ رہیں لیکن وہ احتجاجی کیمپ لگائے بے یارو مدد گار احتجاج کر رہے ہیں۔ وہ بلوچ طالب علم جن کے لئے یہ تاثر قائم کیا گیا ہے کہ وہ پسماندہ اور ناخواندہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں سردار پڑھنے نہیں دیتے۔ یہ تعلیم دشمن اور جاہل لوگ ہیں، آج وسائل اور معدنیات کے مالک یہ طالب علم تعلیم مانگنے کے لیئے سراپہ احتجاج ہیں۔

برکت بلوچ جامعہ بہاالدین زکریا ملتان کے طالب علم ہیں اور احتجاجی کیمپ میں اپنے کئی دوسرے ساتیھوں کے ساتھ شب و روز گزار رہے ہیں، نیا دور سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں بالکل سمجھ نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے۔ وہ سوال کررہے ہیں کہ کیا جامعہ اپنی طرف سے اچانک اسکالرشپس اور نشستیں بند کرکے ہمیں کیا پیغام دینا چاہتی ہے کہ تعلیم ہمارے لیئے نہیں ہے؟

یاسین مراد ماس کمیونکیشن کی طالب علم ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ ملکی میڈیا تک ان کی آواز پہنچائی جائے جس پر میں انھیں بالکل بھی مطمئن نہیں کرسکتا کہ ان کا یہ مطالبہ کسی ویب سائٹ یا ادارے کے لئیے پتہ نہیں نیوز ویلیوز پر پورا اترتا بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔

اسی طرح اس لاک ڈاؤن میں بولان میڈیکل کالج بچاؤ تحریک اور میڈیکل یونیورسٹی کی نجکاری کے خلاف ترمیمی ایکٹ کے لیئے بلوچستان کے مستقبل کے ڈاکٹر پچھلے چار دنوں سے صوبائی دارلحکومت  کوئیٹہ میں وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بہت سارے طالب علموں کی حالت انتہائی نازک ہے مگر صوبائی سرکار کے لیئے یہ احتجاج اور مطالبہ انتہائی گستاخانہ ہے جس کے لئیے کئی دفعہ پہلے بلوچ طالبات کو گھسیٹ کر حوالات میں بند بھی کیا گیا ہے۔

گوادر میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طلبہ و  طالبات بھی سراپہ احتجاج ہیں کہ کیمپس کے اندر انٹرنٹ کی سہولت نہیں۔  سی پیک منصوبوں کے شہر میں موبائل سگنلز پر بات نہیں ہوپاتی اور اچانک سے یونیورسٹی نے آن لائن کلاسز و آن لائن ٹرینگ کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد طالب علموں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں فیل کرنا اور دوبارہ فیس وصول کرنا ہے۔

اب نہ جانے ہزاروں لاپتہ طالب علم کب بازیاب ہونگے اور یہ سلسلہ کب ختم ہوگا؟ حیات بلوچ کو انصاف ملے گا بھی یا نہیں؟ بلوچ طالب علم ہونا ایک مشکوک شناخت سے کب علم کا طلب گار بن جائے گا؟ مگر موجودہ تمام تر واقعات کو دیکھ کر ایک معصوم بچے کا اٹھایا ہوا وہ پوسٹر اور اس پر لکھا سوال ہر ذہن کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ تعلیم بلوچ طالب علموں کے لیئے نا ممکن کیوں؟

 

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔