روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے: 'حالات بلکل پہلے کے جیسے ہیں  بلکہ پہلے سے بھی خراب'

روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے: 'حالات بلکل پہلے کے جیسے ہیں  بلکہ پہلے سے بھی خراب'
تبدیلی کا نعرہ نوے کی دہائی میں بلند ہوا اور بلند کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ کپتان عمران خان تھا پہلے پہل تو کسی نے کان نہ دھرے لیکن آہستہ آہستہ یہ نعرہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ ہر نوجوان، مرد، بوڑھے بچے سب اس نعرے کے پیروکار بن گئے اور سب کی زبان پر یہ نعرہ گونجنے لگا کہ " تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے" اس قافلے میں ہم جیسے بھولے بھالے لوگ بھی شامل تھے جو سابقہ کرپٹ حکمرانوں اور اس ملک کے ظالمانہ نظام سے چھٹکارا چاہتے تھے تو اس وقت عمران خان گھُپ اندھیرے میں روشنی کی مانند تھا اور اس قوم کی آخری امید بن کر سامنے آیا۔

یہ سارا ملک ایسے ہی کپتان کا دیوانہ نہ بنا بلکہ اس کے کچھ اصولوں، وعدوں اور سبز باغوں کی وجہ سے بنا۔ اس جنون کا عروج 2008 میں شروع ہوا جب کپتان کنٹینر پر چڑھ کر کرپٹ حکمرانوں کو للکارتا تھا اور فرماتا تھ" جب مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جائے حکمران چور ہے" اور پھر موصوف فرماتے کہ اسٹیبلشمنٹ اس ملک کی سب سے بڑی دشمن ہے اور اگر اسٹیبلشمنٹ چاہے تو ایک جانور بھی وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ پھر 2013 کے عام انتخابات ہوئے جس میں کپتان کوپھر سے شکست ہوئی جس کی امید نہ تھی۔پھر کپتان نے آو دیکھا نہ تاو اور ٹوٹ پڑا۔ اسلام آباد میں دھرنہ دے دیا جو 126 دن تک جاری رہا جس میں ہر روز کپتان ایک چور کو بے نقاب کرتے۔ کبھی فرماتے کہ پرویز الہی پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہے تو کبھی فرماتے کہ ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی قاتل جماعت ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی کو لتاڑتے تو کبھی ن لیگ۔
پھر 2018 کا انتخاب نزدیک آیا اور کپتان نے انتخابی مہم شروع کر دی۔ اور قوم سے وہ وہ وعدے کیے کہ اللہ پناہ، ایک کروڑ نوکریا، پچاس لاکھ گھر، پولیس ریفامرز، جوڈیشری ریفامز، چوروں سے دس دن میں پیسہ نکلواو گا وغیرہ وغیرہ۔ پھر انتخابات ہوئے اور کپتان ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔ پھر ہم جیسے لوگوں نے خوب خوشی منائی کہ چوروں سے آزادی مل گئی اور اب ملک سو دنوں میں ٹھیک ہو جائے گا

اقتدار سنبھالتے ہی کپتان نے پنجاب کے سب سے بڑا ڈاکوں کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنادیا اور کراچی کی سب سے بڑی قاتل پارٹی ایم کیو ایم کو اپنا اتحادی بنا لیا اور انہیں وفاق میں وزارتیں بھی دے دی۔ ہم لوگوں نے پھر بھی سپورٹ کیا کہ شاید مجبوری ہو لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعد سابقہ پارٹیوں کے چور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کر لیے اور سوائے ایک وزیر کے ساری کابینہ مانگے تانگے کی بن گئی مطلب جن لوگوں سے چھٹکارا حاصل کیا تھا پھر سے وہی مسلط ہو گئے بس پارٹی نام کا فرق ہے۔ پھر شروع ہوا مہنگائی کا دور جو گھی کرپٹ حکومت میں 165 روپے فی کلوں تھا وہ اس ایماندار حکومت میں 300 روپے تک پہنچ گیا اسی طرح پیٹرول 65 سے 120 روپے، چینی 55 سے 110 روپے، ڈالر 104 سے 161 روپے تک پہنچ گیا۔ غریب کی زندگی کو اجیرن بنا دیا وہی غریب جس نے بہتری کی خاطر ووٹ دیا تھا آج وہی پچھتا رہا ہے۔ سارے وزیر کرپشن کر رہے ہے اور کپتان کو پتہ بھی ہے اور میرا کپتان انصاف کا بہت پکا ہے جو وزیر کرپشن میں شامل ہو اسے اس وزارت سے ہٹا کر نئی وزارت عنایت کر دیتا ہے۔
المختصر صرف ایک چہرہ بدلا ہے باقی سب وہی چہرے ہے اور وہی ظالمانہ سسٹم ہے۔ کل بھی غریب بیچارہ ظلم کی چکی میں پِس رہا تھا اور آج بھی۔ حالات بلکل پہلے کے جیسے ہیں  بلکہ پہلے سے بھی خراب۔ اب آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ اس ملک پر اپنا خاص کرم فرمائے اور کوئی ایسا لیڈر بھیجے جو اس دکھیاری قوم کا سہارا بن سکے۔

کالم نگار، فری لانس جرنلسٹ اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں۔ ٹویٹر اکاونٹ: @Farhan_Speaks_