معاشی ترقی کے لیے فوج کو سیاسی طاقت سے دستبردار ہونا ہو گا

فوجی اسٹیبلشمنٹ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ملک کے اقتصادی حالات سیاسی فیصلوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ ملک کے موجودہ معاشی بحران کو بھی سیاسی فکر ہی حل کر سکتی ہے۔ فوجی طاقت معاشی حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے بنی ہی نہیں ہے۔

معاشی ترقی کے لیے فوج کو سیاسی طاقت سے دستبردار ہونا ہو گا

کسی بھی کام کو سرانجام دینے کے لیے طاقت نہایت ضروری ہے۔ طاقت کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، جن سے مختلف طرح کے کام لیے جاتے ہیں۔ ایک طرح کی طاقت سے سارے کام نہیں لیے جا سکتے۔ اگر ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کی کوشش کی جائے تو اس کے نتیجے میں وہ طاقت بھی ختم ہو جاتی ہے اور نظام بھی خراب ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایک ہی طاقت کے ذریعے سے تمام کام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور یہ فوج کی طاقت ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ فوجی طاقت خاص مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، مگر ہم فوجی طاقت کو سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی استعمال کرنے پر بضد رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان آج تک سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر مضبوط ریاست نہیں بن سکا۔ ہر طاقت کی ایک منتہا ہوتی ہے جس کے بعد وہ اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ یا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی نئے اور منفرد عقدے کے حل کے لیے وہ طاقت غیر مؤثر ہو جاتی ہے اور اس کے بعد ایک نئی طاقت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ طاقت کو بچانے کے لیے اس کو دوسری طاقتوں کے ساتھ ضرب دینی پڑتی ہے تا کہ آپ کی طاقت بھی بچ جائے اور نظام بھی چلتا رہے۔

پاکستان کے سیاسی اور فوجی ادارے طاقت کے اس اصول پر یقین ہی نہیں رکھتے، وہ صرف بندوق اور ڈنڈے کی طاقت سے سارے مسائل حل کرنے کی قدرت پہ یقین رکھتے ہیں۔ سیاسی ادارے اس لیے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے اور اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے فوجی طاقت کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کا تنیجہ یہ نکلا ہے کہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری، معاشرتی خلفشار اور بدامنی نے پاکستان کی ریاست کی کمر توڑ دی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کشکول اٹھا کرامریکی، یورپی اور خلیجی دروازوں پر خیرات کی منتظر ہے۔

مگرایسا نہیں ہے کہ پاکستان اکیلا اس صورت حال سے دوچار ہے یا پاکستان سے پہلے کسی ریاست کے ساتھ یہ معاملہ پیش نہیں آیا۔ دنیا کے بہت سارے ممالک نے فوجی طاقت کے ذریعے سے ریاست کے امور کو چلانے کی کوشش کی مگر جب ان کو اس بات کا ادراک ہوا کہ وہ اس طاقت کے ذریعے ملک کے سیاسی اور اقتصادی حالات کو ٹھیک نہیں کر سکتے تو انہوں نے حکومتی معاملات سیاسی قیادت کے حوالے کر دیے۔ جن ممالک نے اس دور اندیشی سے کام لیا وہ آج کشکول اور خیرات سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔

ریاستوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقتور ترین فوجی حکومتیں بھی اقتصادی اور معاشرتی مسائل سے نمٹنے میں ناکام رہی ہیں۔ براعظم جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں 1980 کی دہائی میں جنرل فرینسسکو کی فوجی حکومت تھی، پیرو کے اقتصادی حالات انتہائی ابتری کا شکار ہو گئے، معاشی عدم استحکام میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا، جب جنرل فرینسسکو کی طاقتور فوجی حکومت کو احساس ہوا کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے سے قاصر ہے تو اس نے حکومت سیاسی افراد کے حوالے کر دی۔ اسی طرح برازیل میں فوجی حکومت نے 1968 سے لے کر 1973 تک ملک کی اقتصادی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا، مگر جیسے ہی تیل کا عالمی بحران شروع ہوا تو فوجی حکومت کو احساس ہو گیا کہ وہ تازہ اقتصادی بحران سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ برازیل کے آخری فوجی حکمران جاؤ فگیوریڈو نے ماضی کی غلطیوں پر شرمندگی کا اظہار کیا اور بلا تامل حکومت منتخب عوامی نمائندوں کے حوالے کر دی۔ جنوبی امریکہ کے ہی ایک اور ملک یوراگوئے کی فوجی حکومت نے 1980 میں ریفرنڈم کروایا۔ عوام نے فوجی حکومت کے خلاف ووٹ دیا تو ملٹری نے حکومت سویلین نمائندوں کو سونپ دی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یونان میں فوجی حکمرانی کی تاریخ اور پاکستان میں فوجی حکومت کی تاریخ میں ایک دلچسپ مماثلت پائی جاتی ہے۔ یونان میں 1967 میں فوج اقتدارمیں آئی۔ ان فوجی حکمرانوں نے کبھی بھی عوام سے فوجی حکومت کو منوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی فوجی حکومت ایک 'صحت مند' اور 'تازہ' جمہوری نظام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی فوجی حکومتیں 'حقیقی' جمہوریت کا رستہ ہموار کرنے کی غرض سے ہی آتی رہی ہیں۔ یونان میں جب فوجی حکومت کو احساس ہوا کہ 'اصلی' جمہوریت کی بجائے ملک اقتصادی بحران کا شکار ہو رہا ہے تو انہوں نے 1974 میں ملک کو جمہوری طاقتوں کے حوالے کر دیا۔

دنیا میں اور بھی کئی ایسے ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جہاں اندرونی خلفشار، انقلاب اور خوں ریزی کے بغیر فوج نے رضاکارانہ طور پر ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کر دی۔ سپین میں کافی عرصے تک فوجی حکومت رہی، جنرل فرینکو کی طاقت کا سپین سے لے کر پورے یورپ تک طوطی بولتا تھا۔ جنرل فرینکو کی 1975 میں موت کے بعد سپین کی فوجی لیڈرشپ کو احساس ہوا کہ فرینکو کی حکومت ملک کو 'لاقانونیت' اور 'اقتصادی و سیاسی تنزلی' کی طرف لے گئی ہے۔ تب انہوں نے فوجی نظام کو تحلیل کر کے جمہوری اداروں کی حمایت کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کا موجودہ معاشی بحران ریاست اور سیاست دونوں کی ناکامی ہے۔ 24 کروڑ نفوس پر مشتمل ایٹمی ملک دیوالیہ ہونے سے بچنے کے جتن کر رہا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کے افراد آٹے کی قطاروں میں لگے ہیں اور کئی وہیں دم توڑ رہے ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف، امریکہ، یورپ اور خلیجی مملک سے امداد کا طلب گار ہے کہ وہ اس اقتصادی بحران سے نکل سکے، مگر ماہرین معاشیات کے مطابق امداد ملنے کے باوجود بھی پاکستان کو اقتصادی بحران کا سامنا رہے گا۔ پاکستان کے معاشی حالات اسی طرح رہے تو ریاست کا وجود برقراررکھنا مشکل ہو جائے گا۔ دوسری طرف دہشت گردی پھر سے سر اٹھا چکی ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھی فوجی طاقت سے زیادہ سیاسی طاقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو باقی ملکوں کی فوج کی مثالوں سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی طاقت کو بھی بچاؤ اور ریاست پاکستان کو بھی بچاؤ۔ یہ طاقت اس وقت تک ہے جب تک ریاست موجود ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ملک کے اقتصادی حالات سیاسی فیصلوں پہ انحصار کرتے ہیں۔ ملک کے موجودہ معاشی بحران کو بھی سیاسی فکر ہی حل کر سکتی ہے۔ فوجی طاقت معاشی حالات کو ٹھیک کرنے کے لیے بنی ہی نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے اور ریاست کو بچانے کے لیے مضبوط اور پاپولر سیاسی فیصلہ سازی کی ضرورت ہے، مگر ایسا تب ہو گا جب ہماری فوج رضاکارانہ طور پر سیاسی طاقت عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کرے گی۔

عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔