ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

ہنگامہ ہے کیوں برپا؟
روایتیں جب ٹوٹتی ہیں۔ جب نئے رشتے بنتے ہیں۔ شور تو ہوتا ہے۔ جھگڑے بھی بنتے ہیں۔ توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ برتن تبدیل ہوتے ہیں۔ کئی گھر اجڑتے ہیں۔ بہت سے بستے بھی ہیں۔ یہ تو ہوتا ہے، ہوتا آیا ہے۔

یہی باتیں، ایسی مخالفانہ تنقید پیپلزپارٹی کے پہلے دور حکومت میں بھی ہوتی تھی۔ پیپلزپارٹی نے بھی بڑے بڑے برج گرائے تھے۔ ہوتا یہ ہے کہ برج جو گرائے جاتے ہیں ان کی جڑیں بڑی گہری ہوتی ہیں، دور تک۔ پھر برج کے سائے سے مستفید ہونے والے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ تکلیف تو ہوتی ہے، جب سایہ ہٹ جاتا ہے۔ پھر عادتیں بدلنا پڑتی ہیں۔ حقیقت میں عادتیں بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

نارروال کی تحصیل ظفروال کے جدی پشتی سیاستدان چودھری غلام احمد اور چودھری سرور سگے بھائی تھے۔ گجرات کے چودھری برادران کی طرح سانجھی سیاست کرتے تھے۔ ایک ہی سیاسی ڈیرہ تھا جس کو عرف عام میں کوٹھی کہا جاتا تھا۔ اب بچوں نے تقیسم کر لی ہے۔ اپنی سیاست بھی الگ الگ کرتے ہیں۔ علاقے میں کوٹھی میں جانے والوں کے شملے اونچے ہوتے تھے۔ پولیس، سرکاری ملازمین کے ساتھ ان کا لہجہ تحکمانہ ہوتا تھا۔ کوٹھی میں نچلے درجے کے ملازمین بھی کوٹھی کے باہر صاحب ہوتے تھے۔ پھر اہم ترین ہوتے جو کوٹھی کی وساطت سے سرکاری اداروں میں بھرتی ہوئے ہوتے تھے۔ سرکاری ملازمت کے ساتھ باقاعدگی سے کوٹھی میں حاضری لگواتے تھے۔ علاقے میں سیاست وہی لوگ کرتے تھے جن کا ربط کوٹھی کے ساتھ مضبوط ہوتا تھا۔ دوسروں کے لئے سیاست شجر ممنوع تھی۔ اگر کوئی سر پھرا سیاسی میدان کا رخ کوٹھی کی اجازت کے بغیر کرتا تو اسے سبق سیکھا دیا جاتا تھا۔ یہ روایت بن چکی تھی۔

پھر وہ روایت ٹوٹی اور بکھر گیا سب کچھ، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کوٹھی کے ساتھ جڑے ہوئے ایک ایک بندے نے کتنے پیج تاب کھائے ہوں گے۔ سچ تو یہی ہے کہ عمران خان نے عوام کو کچھ دیا ہے کہ نہیں دیا ہے مگر سیاست کی جکڑبندیاں تباہ ضرور کر دی ہیں۔ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پھر سے جو سیاسی جمود بن گیا تھا۔ عمران خان نے توڑ کے رکھ دیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ شہید بھٹو نے عوام کی طاقت سے برج الٹائے تھے۔ عمران خان نے یہی کام چور دروازے سے کیا ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کے کام میں عوام کی شمولیت کی بجائے اداروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ مجرم شہید بھٹو بھی ٹھہرائے گئے تھے۔ گناہگار عمران خان بھی ہے۔

یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ سیاست عہد کی ہوتی ہے۔ عمران خان کے عہد کے تقاضے بھی اپنے ہیں۔ نسل نو جنہیں عرف عام یوتھیا سے پکارا جاتا ہے۔ انہیں ایک تراشیدہ بھٹو دیا گیا ہے۔ ان کی مرضی اور طبعیت کے مطابق بھٹو کی تخلیق کی گئی ہے۔

شوشل سائنس میں یہ متھ ہے کہ 35 سال بعد سماج انگڑائی لیتا ہے، اُتھل پتھل ہوتی ہے۔ پرانے رشتے ٹوٹتے ہیں۔ نئے رشتے بنتے ہیں۔ عمران خان نے توڑ پھوڑ کی ہے۔ نئے رشتے بنائے ہیں، مگر نئے رشتے صرف ریاست اور حکمران اشرافیہ کے بنے ہیں۔ عوام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ منظرنامہ صرف اشرافیہ تک ہی تبدیل ہوا ہے۔ شہید بھٹو کے کارہائے نمایاں میں عوامی رشتوں کو خاص اہمیت تھی۔

عمران خان کے دور میں خواص کو اہمیت حاصل ہے۔ عوام کے لئے کھڑکی ہے جس سے عوام دیکھ سکتے ہیں۔ یہی سچ ہے کہ عوام دیکھتی رہ گئی ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری سے عوام نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ اپوزیشن کی اے پی سی ہو۔ احتجاج ہو یا مولانا فضل رحمان کا آزادی مارچ ہو۔ کسی میں عوام کے مطالبات، عوامی مسائل اور مشکلات کا ذکر نہیں ہے۔

جس سے کھل کر یہ بات سامنے آتی ہے کہ لڑائی حکمران طبقات کی اپنی ہے۔ عمران خان کی مخالفت میں بھی بڑا عنصر حق حکمرانی کا ہے۔ میڈیا میں عمران خان کے خلاف بولنے والے اور لکھنے والوں کے پی ٹی آئی حکومت سے رشتے استوار ہونے کی دیر ہے۔ پھر عمران خان بھی سب کو نواز شریف لگنا شروع ہو جائیں گے۔

ملک عزیز کی 72 سالہ تاریخ میں یہی جمہوری اور غیر جمہوری کھیل تماشے جاری رہے ہیں۔ عمران خان اور پی ٹی آئی بھی کچھ عرصہ بعد اجنبی نہیں رہے گی۔ پرت پلٹی ہے۔ ایڈجسٹمنٹ کا مسئلہ ہے۔ جلدی سب کچھ نارمل دیکھائی دے گا۔ صحافی، دانشور بھی ایڈجسٹ کر لیے جائیں گے اور شور تھم جائے گا۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔