صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی میں توہین رسالت کے الزام میں ایک ہندو ٹیچر نوتن لعل کو عمر قید اور جرمانے کی سزا سنا دی گئی ہے۔ نوتن لعل 2019ء سے جیل میں قید ہیں۔ عدالت نے دو سال میں اس مقدمے کا فیصلہ سنایا۔
گھوٹکی کی سیشن عدالت کے ایڈیشنل سیشن جج ممتاز علی سولنگی نے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جسے آج سنا دیا گیا۔ ہندو ٹیچر نوتن لعل پر جرم ثابت ہونے پر عدالت نے انھیں عمر قید کیساتھ ساتھ پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی۔
سیشن عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہندو ٹیچر نوتن لعل کو کوڈ آف کریمنل پروسیچر کے سیکشن H 265 کے تحت عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
تعزیرات پاکستان کی اس دفعہ کے تحت اگر ملزم اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو تسلیم کر لے تو قانون کے مطابق اس کو سزا سنائی جا سکتی ہے۔
تاہم اگر ملزم اپنے اوپر عائد الزامات تسلیم نہ کرے توعدالت شواہد کی روشنی میں فیصلہ دے دیتی ہے۔ اس مقدمے میں نوتن لعل کی جانب سے ضمانت کی درخواست دو بار مسترد کی گئی تھی۔
خیال رہے کہ 14 ستمبر 2019ء کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک طالبعلم نے دعویٰ کیا تھا کہ گھوٹکی میں سندھ پبلک سکول کے مالک نوتن لعل نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا ہے۔
اساتذہ کا کہنا تھا کہ نوتن لعل اگرچہ سکول کا مالک ہے، مگر وہ خود گورنمنٹ ڈگری کالج گھوٹکی میں بطور استاد پڑھاتے تھے۔ واقعے کے روز اس دن انہوں نے محض سکول میں چکر لگایا تھا۔
نوتن لعل کے دو چھوٹے بچے بھی اسی سکول میں زیر تعلیم تھے جبکہ دو بڑے بچے کراچی میں پڑھتے تھے۔
سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد گھوٹکی میں جماعت اہلسنت والجماعت کے رہنما مفتی عبدالکریم سعیدی نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے سندھ پبلک سکول کے مالک نوتن لعل کیخلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت گستاخی کا مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ اس دفعہ ایک 295 سی کے تحت جرم ثابت ہونے پر پھانسی اور جرمانے کی سزا ہو سکتی تھی۔
https://twitter.com/HRCP87/status/1173187613227986945?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1173187613227986945%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.dawn.com%2Fnews%2F1505352
گھوٹکی پولیس نے مفتی عبدالکریم سعیدی کو یقین دلایا تھا کہ وہ نوتن لعل کو گرفتار کر لیں گے مگر کیس درج ہونے اور پولیس کی جانب سے ملزم کی گرفتاری کی یقین دہانی کے باوجود اسی رات گھوٹکی میں پرتشدد واقعات شروع ہوگئے۔
اساتذہ کا کہنا تھے کہ پندرہ ستمبر کی صبح ایک مشتعل ہجوم سندھ پبلک سکول میں گھس گیا۔ ہجوم میں شامل لوگوں نے توڑ پھوڑ شروع کی اور عمارت کے اندر موجود سامان کو آگ لگا دی۔ حملے کے دوران اساتذہ جان بچا کر فرار ہوئے۔
دوسری جانب مشتعل ہجوم نے سچو سترام دھام مندر پر بھی حملہ کر دیا اور مندر کے اندر گھس کر مورتیوں کو نقصان پہنچایا اور دیوار بھی مسمار کر دی۔
مندر کی خدمت پر مامور رضاکار کیلاش کپور اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ اس وقت مندر میں موجود تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے پچاس کے لگ بھگ افراد کو ڈنڈوں اور آہنی سلاخوں کے ہمراہ مندر کی جانب بڑھتے دیکھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں، آخر ہم مندر کے ایک کونے میں چھپ گئے۔
متاثرہ مندر کے نگران جے کمار نے حملے کو مسلمانوں اور ہندوؤں کو آپس میں لڑانے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر حملہ کرنے والے مسلمان تھے تو دوسری جانب ہماری مدد کیلئے آنے والے بھی مسلمان ہی تھے۔