پاکستان کی لگ بھگ نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر مختلف شعبوں میں خواتین کو ان کی آبادی کے مطابق نمائندگی نہیں ملتی۔ سیاست بھی ایسا ہی شعبہ ہے جہاں خواتین بہت کم تعداد میں موجود ہیں۔ باقی شعبوں کی طرح سیاست کے میدان میں بھی مردوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خواتین کو صرف مخصوص نشستوں پر پارلیمنٹ کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے شرط رکھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں پر کم از کم 5 فیصد خواتین کو نامزد کریں گی۔ اگرچہ خواتین کی آبادی کو دیکھا جائے تو یہ شرح بھی بہت کم ہے مگر سیاسی جماعتیں اس کم سے کم شرح کے مطابق بھی خواتین کو نامزد کرنے میں ناکام ثابت ہوتی ہیں۔
غیر سرکاری ادارے فافن کی رپورٹ کی مطابق اکثر بڑی سیاسی جماعتوں نے 2024 کے عام انتخابات میں خواتین امیدواروں کی نمائندگی کی اس شرط کو پورا نہیں کیا۔ ان میں بڑی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں سیاست مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی ہے اور صرف وہی خواتین پارلیمنٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہو پاتی ہیں جن کا تعلق کسی مضبوط سیاسی گھرانے سے ہوتا ہے۔ عام خواتین کے لیے اس قسم کے ناسازگار ماحول میں سیاست کرنا مشکل ہی نہیں، بعض صورتوں میں ناممکن بھی بن جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کئی خواتین ناصرف سیاسی میدان میں موجود ہیں بلکہ اپنی موجودگی کا بھرپور احساس بھی دلاتی رہتی ہیں۔
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں 17 ہزار 816 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں سے 882 خواتین امیدوار ہیں۔ جو خواتین انتخابی میدان میں مضبوط امیدوار کے طور پر موجود ہیں ان میں سے ہم چند نمایاں ناموں کا تذکرہ یہاں کریں گے؛
1۔ مریم نواز شریف
مریم نواز مسلم لیگ ن کے رہنما اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی بیٹی ہیں اور پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مریم نواز لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 119 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لاہور ہی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی میدان میں ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر وہ الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انہیں مرکزی حکومت یا پنجاب میں اہم ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر بھی فائز کیا جا سکتا ہے۔
2۔ ڈاکٹر یاسمین راشد
ڈاکٹر یاسمین راشد پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتی ہیں اور لاہور کے حلقہ این اے 130 سے میاں نواز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑ رہی ہیں۔ 2018 کے انتخابات میں وہ اسی حلقے سے کامیاب ہوئی تھیں اور عمران خان دور حکومت میں وفاقی وزیر بھی بنی تھیں۔ ان دنوں 9 مئی کیسز میں وہ جیل میں ہیں۔
3۔ زرتاج گل
زرتاج گل پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے حلقہ این اے 185 سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ پر این اے 191 سے حصہ لیا تھا اور کامیاب ہوئی تھیں۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں زرتاج گل ماحولیات کی وفاقی وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ زرتاج گل کا تعلق پنجاب کے ایسے علاقے سے ہے جہاں جاگیردار سوچ پائی جاتی ہے اور سیاست پر مخصوص گھرانوں کا قبضہ ہے۔ اس ماحول میں زرتاج گل نے ایک سیاسی کارکن کے طور پر اپنی الگ پہچان بنائی اور پارلیمنٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
4۔ سائرہ افضل تارڑ
سائرہ افضل تارڑ معروف سیاست دان افضل تارڑ کی صاحبزادی ہیں اور وفاقی وزیر رہ چکی ہیں۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 67 حافظ آباد سے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار ہیں جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار انیقہ بھٹی پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ حلقہ اس حوالے سے دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے کہ یہاں دونوں مضبوط امیدوار خواتین ہیں۔
5۔ مہربانو قریشی
مہربانو قریشی پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی ہیں اور ملتان کے حلقہ این اے 151 سے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ مہربانو قریشی نے 2022 کے ضمنی انتخابات میں بھی اسی حلقے سے الیکشن لڑا تھا مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار علی موسیٰ گیلانی انہیں مسلم لیگ ن کے امیدوار عبدالغفار ڈوگر کی حمایت کے ساتھ ہرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
6۔ ثمر بلور
ثمر بلور کا تعلق نیشنل عوامی پارٹی سے ہے۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور ان کے سسر ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے چند روز قبل ان کے شوہر ہارون بلور ایک خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد ثمر بلور انتخابی میدان میں آئی تھیں۔ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے پشاور اسمبلی کے حلقہ پی کے 78 سے کامیابی حاصل کی تھی۔ ثمر بلور اس مرتبہ پشاور سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔
7۔ سویرا پرکاش
سویرا پرکاش نوجوان سیاست دان ہیں اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر سے ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ سویرا پرکاش پہلی ہندو خاتون ہیں جو صوبہ خیبر پختونخوا سے صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ ان کے والد بھی ڈاکٹر ہیں اور پورے علاقے میں اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ اگر ڈاکٹر سویرا پرکاش یہ نشست جیتنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہو گا۔
8۔ عالیہ حمزہ ملک
2018 کے عام انتخابات میں عالیہ حمزہ ملک پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنی تھیں۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں وہ وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بھی رہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں وہ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 118 لاہور سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
9۔ ریحانہ ڈار
ریحانہ ڈار پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم سابق رہنما عثمان ڈار کی والدہ ہیں اور سیالکوٹ کے حلقہ این اے 71 سے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے مدمقابل پہلی مرتبہ الیکشن لڑ رہی ہیں۔ 9 مئی واقعات کے بعد عثمان ڈار روپوش ہو گئے تھے اور جب وہ مںظرعام پر آئے تو انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس بنا پر ان کی والدہ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ اگر ریحانہ ڈار اس حلقے میں خواجہ آصف کو ہرا دیتی ہیں تو یہ ن لیگ کے لیے بہت بڑا اپ سیٹ ہو گا۔
10۔ کنول شوذب
کنول شوذب 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مخصوص نشست پر قومی اسمبلی کی رکن بنی تھیں اور عمران خان دور حکومت میں انہیں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بھی مقرر کیا گیا تھا۔ موجودہ عام انتخابات میں کنول شوذب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 166 بہاولپور سے انتخاب لڑ رہی ہیں۔ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار ہیں۔