مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں کیا اچھا ہے اور کیا برا اور یہ کتنا عوام دوست یا عوام دشمن ہے اس کے بارے میں تو بہت سے لوگ باتیں کر ہی رہے ہیں البتہ میں بجٹ کو ایک الگ تناظر میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
جب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بجٹ پیش کر رہے تھے اور اپوزیشن شدید نعرے بازی کر رہی تھی تو مجھے یاد آیا کہ یہ مناظر گذشتہ کئی سالوں سے پارلیمنٹ میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سال بدلے، حکومتیں بدلیں، اپوزیشن بدلی مگر نہ بدلا تو طرفین کا رویہ نہ بدلا۔
یہی سوچتے ہوئے میں نے گذشتہ سالوں کے اخبارات انٹرنیٹ سے نکالنے شروع کیے تو اس میں دو باتیں نوٹ کیں۔ یہی دو باتیں بتانے کے لئے میں آج یہ آرٹیکل لکھنے بیٹھی ہوں۔ ایک تو یہ کہ اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ تقریباً ہر سال کیا گیا (صرف 2022 میں ہنگامہ نہیں ہوا اور حکومت نے بجٹ خاموشی سے پیش کیا۔ خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ اسمبلی میں اپوزیشن کی بڑی پارٹی پی ٹی آئی مستعفی ہو چکی تھی) اور دوسری بات یہ کہ بجٹ کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے بیانات ایک جیسے تھے۔ مطلب یہ کہ جو پارٹی پہلے حکومت میں تھی اور بعد میں اپوزیشن میں آ گئی اور جو اپوزیشن میں تھی وہ حکومت میں آ گئی مگر دونوں کے بیانات ایک سے رہے۔
کردار بدلتے رہے مگر ڈائیلاگز نہ بدلے۔
پہلے ذرا اپوزیشن کے ہنگامے کی بات کرتے ہیں۔ 2011 میں ن لیگ اپوزیشن میں تھی جبکہ پی پی حکومت میں تھی۔ جب وفاقی وزیر خزانہ حفیظ شیخ 2011-12 کا بجٹ پیش کرنے لگے تو ن لیگی رہنما احسن اقبال روٹی لے کر وزیر خزانہ کے ڈیسک پہ پہنچ گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ انہیں روکنے کے لئے آئے۔ اندازہ کریں کہ کیسے کیسے تماشے پارلیمان میں ہوتے رہے ہیں۔ بجٹ کی کاپیاں پھاڑنا، سپیکر ڈائس کا گھیراؤ کرنا، نعرے بازی، شور شرابا تو تقریباً ہر دور میں ہوا۔ اس سال بھی دیکھ لیں کہ کس طرح اپوزیشن نے ہنگامہ کیا۔ وزیر اعظم کے خلاف نعرے بازی کی۔ سیٹیاں اور باجے بھی بجائے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
گذشتہ سالوں کے اخبارات دیکھ کر جو دوسری بات میں نے نوٹ کی وہ تھی حکومت اور اپوزیشن کے ایک جیسے بیانات۔ آئیے 2011 سے 2021 تک کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں۔
2011 میں حکومت نے کہا؛ 'تنخواہوں میں اضافہ اور ترقیاتی منصوبے، بجٹ میں تاریخ رقم کی'۔ جبکہ اپوزیشن کا کہنا تھا؛ 'حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو گئی'۔
2012: 'بجٹ عوام دوست، اپوزیشن کے رویے سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا'۔ حکومت
'بجٹ الفاظ کا ہیر پھیر ہے، غریبوں کو کوئی خوشخبری نہیں دی گئی'۔ اپوزیشن
2013 میں حکومت بدل گئی۔ جو پارٹی حکومت میں تھی وہ اپوزیشن میں چلی گئی اور جو اپوزیشن میں تھی وہ حکومت میں آ گئی مگر بیانات میں تبدیلی نہ آئی۔ 2013 میں ملک بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
2014: 'بجٹ عوام دوست ہے'۔ حکومت
'امیروں کو نوازا گیا'۔ اپوزیشن
2015: 'وفاقی بجٹ عوام دوست اور متوازن ہے'۔ حکومت
'معاشی دھماکے کرنے کی دعوے دار حکومت نے غریب آدمی کا ہی دھماکہ کر دیا'۔ اپوزیشن
2016: 'بجٹ عوام اور کاشت کار دوست ہے، غریبوں کو فائدہ پہنچے گا'۔ حکومت
'بجٹ مایوسی کی داستان، غریب عوام پہ ڈرون حملہ ہے'۔ اپوزیشن
2017: 'بجٹ مایوس کن ہے، حکومت غریب عوام کو خواب بھی نہ دکھا سکی'۔ اپوزیشن
2018: 'عوام دوست میزانیہ پیش کیا گیا'۔ حکومت
'بجٹ کا مقصد صرف سیاسی عزائم ہے'۔ اپوزیشن
2019 میں ایک دفعہ پھر حکومت بدلی۔ پارٹی پوزیشن بھی بدل گئی۔ جو حکومت میں تھے وہ اب اپوزیشن بنچز پہ آ گئے اور اپوزیشن والی پارٹی یعنی پی ٹی آئی حکومت میں آ گئی۔
2019: 'بجٹ نئے پاکستان نظریے کا عکاس ہے'۔ حکومت
'بجٹ عوام دشمن ہے، باورچی خانہ چلانا مشکل ہو گیا'۔ اپوزیشن نے بجٹ مسترد کر دیا
2020: 'عمران خان نے عوامی ہمدردی کا آئینہ دار بجٹ پیش کیا'۔ حکومت
'غریب کش بجٹ ہے، مزدور کے لئے کچھ نہیں ہے'۔ اپوزیشن
2021: 'حکومت نے جعلی اعداد و شمار دیے، بجٹ کی مخالفت کریں گے'۔ اپوزیشن
2022: 'بجٹ متوازن ہے'۔ حکومت
'حکومت کا بجٹ عوام اور کاروبار دشمن ہے'۔ اپوزیشن
2023: 'بجٹ مذاق تھا، پیسہ کہاں سے آئے گا؟' اپوزیشن
2024: 'بجٹ میں تنخواہ دار طبقے، پنشنرز اور مزدوروں کو ریلیف دیا گیا'۔ حکومت
'غربت پہ ٹیکس، اشرافیہ کو فائدہ ہوا'۔ اپوزیشن
2011 سے 2024 تک حکومتیں بجٹ کو عوام دوست اور اپوزیشن جماعتیں اسے عوام دشمن قرار دیتی آئی ہیں۔ اس دوران حکومتیں بدلیں، اپوزیشن بدلی مگر بیانات وہی رہے۔ جو پارٹی حکومت میں تھی وہ بعد میں اپوزیشن میں آ گئی اور جو اپوزیشن میں تھی وہ حکومت میں آ گئی۔ عوام کے نام پر عوام کو ہی بے وقوف بنایا گیا۔ سب نے اس عوام کا نام لیا جسے ان اعداد و شمار کی ککھ سمجھ نہیں ہے۔ عوام تو بس تب ہی خوش ہو گی جب اس کو ضرورت کی تمام اشیا مناسب داموں پہ میسر ہوں گی۔ جب وہ اپنی دو وقت کی روٹی سکون سے کھا سکیں گے۔ البتہ حکومت اور اپوزیشن کا یہ 'بجٹ عوام دوست' اور 'بجٹ عوام دشمن' کا کھیل چلتا رہے گا کیونکہ ہمارے ہاں یہی جمہوریت کا 'حُسن' سمجھا جاتا ہے۔