پاکستان کے سیاسی ماحول میں اس وقت امریکی خاتون سنتھیا رچی کے سیاستدانوں پر لگائے گئے الزامات کی وجہ سے کافی گرما گرمی ہے۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستانی ٹی وی چینلز پر انٹرویو دیتے ہوئے مزید نئے انکشافات کیے ہیں، جس سے ملک میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔
سنتھیا رچی کون ہیں؟ کہاں سے آئی ہیں؟ کیا کرتی ہیں؟ پاکستانی سیاستدانوں اور حکومتی ایوانوں تک ان کی رسائی کیسے ہوئی؟ پیپلزپارٹی کی قیادت نے ان کے ساتھ کیا اور کیسے کیا؟ یہ وہ تمام سوال ہیں جن کے جواب سنتھیا نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں دیے ہیں۔
سنتھیا رچی کون ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب پر پاکستانی شہری جاننا چاہتا ہے کہ آخر یہ خاتون ہیں کون، جنہوں نے ملک کے سیاسی اکھاڑے میں ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر عام عوامی رائے یہی ہے کہ امریکی خاتون سنتھیا رچی غیر ملکی ایجنٹ ہیں، لیکن وہ خود اپنا تعارف فری لانس میڈیا ڈائریکٹر، پروڈیوسر، وی لاگر اور سیاح کے طور پر کرواتی ہیں۔
44 سالہ سنتھیا امریکی شہری ہیں اور امریکی ریاست لویزیانا میں 22 اپریل 1976 کو پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 2003 میں امریکہ کی لویزیانا سٹیٹ یونیورسٹی سے قانون اور شعبہ ابلاغ عامہ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی اور بعد میں اسی یونیورسٹی سے انہوں نے 2005 میں تعلیم اور نفسیات کے شعبے میں اپنا ماسٹرز بھی مکمل کیا۔
اس کے بعد انہوں نے مزید دو اور شعبوں میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، جس میں سے ایک میں انہوں نے طبی نفسیات میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کی پیپرڈائن یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ دوسری ڈگری سٹریٹیجک پبلیک ریلیشنز کے شعبے میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے مکمل کی۔
سنتھیا رچی کب کب پاکستان آئیں؟
سنتھیا رچی کے پاسپورٹ کی نقل اور پاکستان آنے کے سفری ریکارڈ کے مطابق وہ دو مختلف پاسپورٹس پر 52 دفعہ پاکستان آئیں۔ سنتھیا رچی کا پہلا پاسپورٹ 9 دسمبر 2008 کو جاری ہوا جب کہ امریکی حکام نے سنتھیا رچی کا آخری پاسپورٹ 18 جولائی 2018 کو جاری کیا۔ سنتھیا نے پہلی بار پاکستان کا سفر 9 نومبر 2009 کو کیا اور صرف 3 دن قیام کے بعد 12 نومبر کو کراچی سے ہی واپس روانہ ہو گئیں۔ جبکہ پچھلے 7 سالوں سے وہ شہر اقتدار اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
امریکی خاتون کے پیپلزپارٹی کی قیادت پر الزامات
پپیلز پارٹی کی اعلیٰ سیاسی شخصیات کے حوالے سے سنتھیا کے الزامات نے ایک طوفان کھڑا کر رکھا ہے۔ سنتھیا نے گذشتہ چند دنوں سے پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی ہے، پہلے بختاور بھٹو، پھر بے نظیر بھٹو، اس کے بعد مرتضیٰ وہاب اور سید مراد علی شاہ اور اب یوسف رضا گیلانی، رحمان ملک اور مخدوم شہاب الدین۔ سنتھیا نے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک پر جنسی زیادتی جب کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور سابق وفاقی وزیر مخدوم شہاب الدین پر دست درازی کا الزام عائد کیا۔
’’رحمان ملک نے نشہ آور مشروب پلایا اور اس کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا‘‘
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف ٹویٹس اور الزامات پر سنتھیا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ رحمان ملک نے ویزا کا مسئلہ حل کرانے کا کہہ کر ڈرائیور بھیج کر اپنے پاس بلایا، گلدستہ اور قیمتی تحفہ دینے کے بعد نشہ آور مشروب پلایا اور اس کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا۔ واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے سنتھیا نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے واقعے کے بعد ورک ویزہ کیلیے وزیر داخلہ کی مدد کی ضرورت تھی، جس کے لیے رحمان ملک سے رابطہ کیا۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری رحمان ملک سے جان پہچان وفاقی وزیر صحت کے توسط سے ہوئی تھی، انہوں نے ہی مجھے منسٹرانکلیو بلایا۔ تاہم جب میں وہاں وپہنچی تو سب کچھ میری توقع کےخلاف تھا۔ رحمان ملک نے مجھے این جی او کی نوکری چھوڑنے کے لیے 2 ہزار پاوَنڈ دیے اور کہا اس سے اپنے خرچ پورے کرو۔
سنتھیا نے مزید بتایا کہ ملاقات کے دوران ڈرنک پیتے ہوئے میرا سر چکرانا شروع ہو گیا، زیادتی کے واقعہ کے بعد بھی رحمان ملک کے 2 ہزار پاوَنڈ اپنے پاس رکھے، ڈرائیور نے تمام چیزیں گاڑی میں رکھیں، جس میں 2 ہزار پاوَنڈز بھی تھے۔
’’تحریک انصاف سے دور رکھنے کے لیے پیپلزپارٹی این جی او کی نوکری چھڑوانا چاہتی تھی‘‘
سنتھیا رچی نے انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ جس این جی او کے ساتھ کام کر رہی تھی وہ این جی او اعظم سواتی کی بیٹی چلا رہی تھی، اس وقت اندازہ ہوا کہ پیپلز پارٹی مجھے پی ٹی آئی سے دور رکھنا چاہتی ہے۔ رحمان ملک نے واضح طور پر کہا تھا کہ این جی او چھوڑ دو۔
سنتھیا کا پاکستان تحریک انصاف سے تعلق
2011 میں سنتھیا نے پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ میں سٹرٹیجسٹ اور ریسرچر کے طور پر کام کیا۔ اس کے علاوہ پارٹی منشور کو ترتیب دینے میں بھی انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ سنتھیا کے مطابق اس دوران ان کی دوسری سیاسی جماعتوں سے بھی وابستگی ہوئی، جن میں ایم کیو ایم، ن لیگ، ق لیگ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی سر فہرست ہیں۔ تاہم ان کے مطابق اس دوران کچھ جماعتوں نے ان کی جاسوسی کی اور متعدد بار ان پر حملہ بھی ہوا۔
سنتھیا کا پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سنتھیا کو محکمہ صحت میں کمیونیکیشن لیکچرار کے طور کام کرنے کی دعوت دی۔ سنتھیا کے مطابق انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور پاکستان آ کر بلا معاوضہ پی پی پی حکومت کے لیے اپنی خدمات انجام دیں۔ انہیں محکمہ صحت کی جانب سے رہنے کی جگہ، سفری سہولیات، ایک فون اور ایک ٹیبلٹ ڈیوائس فراہم کی گئی تھی۔
مخدوم شہاب الدین سے دوستی کیسے ہوئی؟
سنتھیا کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر صحت مخدوم شہاب الدین سے ان کی اچھی دوستی تھی، لیکن وہ اکثر بن بلائے ان کی رہائشگاہ پر آجاتے اور بغیر اطلاع دیے ان کے کمرے میں داخل ہو جاتے تھے۔ سنتھیا کے مطابق ایک بار انہوں کے ان کی پیٹھ پر مساج کرنے کی کوشش کی تھی جس کی انہوں نے مذمت کی اور پھر ان سے دوری اختیار کی۔
’’یوسف رضا گیلانی نے نامناسب انداز سے گلے لگایا‘‘
سنتھیا رچی نے کہا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ایوان صدر میں ایک ملاقات کے دوران انہیں نامناسب طریقے سے گلے ملنے کی کوشش کی تھی۔
’’عمران خان بھی ان سے ہمبستری کرنا چاہتے تھے‘‘
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سنتھیا کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کر دیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب سنتھیا کہ قریبی دوست نے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ بیگم نوازش علی کے نام سے کئی سال پاکستان کے ایک کامیاب ترین پروگرام کی میزبانی کرنے والے علی سلیم بھی سنتھیا رچی اور پیپلز پارٹی کے درمیان جنگ میں کود پڑے ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سنتھیا جو کہ ان کی قریبی دوست تھیں اور یہ دونوں کئی دن ایک کمرے میں اکٹھے بھی رہ چکے تھے نے نہ صرف ان کو رحمان ملک کی جانب سے ریپ کیے جانے پر کبھی کچھ نہیں بتایا بلکہ یہ بھی کہا کہ سنتھیا کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی ان سے ہم بستری کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
علی سلیم کا کہنا تھا کہ سنتھیا رچی ان کے انتہائی قریب تھیں اور اگر وہ انہیں یہ بتا سکتی تھیں کہ عمران خان نے انہیں ہمبستری کی پیشکش کی ہے تو پھر وہ یہ بھی بتا سکتی تھیں کہ رحمان ملک نے انہیں ریپ کیا تھا، لیکن انہوں نے اس کا کوئی ذکر کبھی نہیں کیا۔