یہ معمول کا جمعے کا دن تھا لیکن سردی بہت زیادہ تھی اور ہوا بہت ٹھنڈی تھی۔ میرے والد حسب معمول جمعہ پڑھنے کی تیاری کررہے تھے اور غسل خانے غسل کرنے چلے گئے اور میں اپنے کام سے گھر سے کسی کام سے نکل گیا۔ میرے والد صاحب ایک اچھے عہدے پر رہے اور وہ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے۔ میں کام سے باہر تھا تو گھر سے ٹیلیفون آیا کہ والد صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ میں کچھ وقت بعد گھر پہنچ گیا تو ابو کو بخار تھا اور زکام بھی ہوا تھا۔ میں نے ابو سے پوچھا ایک دم کیا ہوا جس پر ابو نے جواب دیا کہ گیزر سے گرم پانی نہیں آرہا تھا تو جمعے کا وقت نکل رہا تھا اور میں نے ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور سیدھا مسجد چلا گیا جس کی وجہ سے ٹھنڈ لگ گئی کیونکہ ہوا بہت تیز اور ٹھنڈ تھی ۔
ہم سمجھے کہ معمول کا بخار ہے دو تین دن میں نارمل ہوجائے گا۔ ہم نے ابو کو معمول کی دوائیاں دی تاکہ بخار کم ہوجائے جس کے بعد ابو کی طبیعت کچھ نارمل ہوئی مگر رات کو ہم ان کو ایک سرکاری ہسپتال لے گئے جہاں ان کا طبعی معائنہ کرنے کے بعد کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیاجو منفی آیا ۔ کرونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آنے کے بعد ڈاکٹرز نے کہا کہ فشار خون کم ہورہا ہے اور ہم زندگی بچانے والی ویکسین لگانا چاہتے ہیں جس پر ہم نے حیران ہوئے اور ان کو جواب دیا کہ جب کورونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آیا ہے تو ویکسین کیوں لگانی ہے مگر ڈاکٹر بضد تھے کہ اپ کے والد صاحب کورونا وائرس کا شکار ہوچکے ہیں ۔
ہسپتال کے عملے اور ہم نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس کا معائنہ کسی دوسرے لیبارٹری سے کرایا جائے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ واقعی کورونا وائرس ہے یا نہیں اگر وائرس پایا گیا تو ہی ویکسین لگائی جائے۔
کچھ دیر بعد ہم نے اسلام آباد کی ایک بڑی لیبارٹری سے والد صاحب کا کرونا ٹیسٹ کروایا اور نتیجے کے انتظار میں تھے اور ابو کی طبیعت بھی نارمل تھی اور وہ مسلسل بضد تھے کہ مجھے گھر جانا ہے مگر ڈاکٹر اجازت نہیں دے رہے تھے۔ کورونا کا ٹیسٹ اگلے روز دوبارہ سےمنفی آیا مگر ابو کی طبیعت پھر خراب ہوئی اور ان کا فشار خون مسلسل نیچے آرہا تھا جس کے بعد ڈاکٹر نے ہمیں کہا کہ ہم نے زندگی بچانے والی ویکسین لگانی ہے کیونکہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
مارکیٹ میں ویکسین کی قیمت 65 ہزار روپے تھی مگر ڈاکٹر نے کہا کہ تین ویکسین خوراکوں کا بندوبست کرلو ۔ ڈاکٹر نے میرے والد کو جیسے ہی پہلی ویکسین لگادی تو اس کے بعد وہ کبھی نہیں بولے اور گونگے ہوگئے اور مسلسل کوشش کے باوجود نہیں بول سکے جن کی وجہ سے ہم ایک نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوئے کہ ایک دم سے ابو کو کیا ہوا۔ بولنے کی صلاحیت ختم ہونے کے بعد جب گھر والے اُن کو دیکھنے آتے تھے تو والد کے ساتھ ساتھ گھر والے بھی زور و قطار روتے تھے کیونکہ ابو بولنے کی کوشش کرتے تھے ابو گھر کے بچوں کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے تھے مگر وہ نہیں کرپارہے تھے اور اسی تکلیف نے ابو کو دماغی طور پر توڑ دیا اور اگلے روز ابو فشارخون کم ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے ۔
یہ ہماری زندگی کا ایک دردناک پہلو تھا کیونکہ ابو ابھی بہت صحت مند تھے اور ہماری گھر کی رونق تھے اور پورے گھر کی زمہ داری اُٹھارہے تھے لیکن اب گھر میں درد ہے ، غم ہے اور تکلیف ہے اور ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہم سب مجرم ہیں کیونکہ اگر ہم ابو کو ہسپتال نہیں لے چلتے تو شائد ابو نہیں مرتے کیونکہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ کورونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آنے کے باؤجود ڈاکٹروں نے ویکسین لگا کر ان کی زندگی لی۔
نوٹ : یہ کہانی نیا دور میڈیا کو اسلام آباد میں مقیم ایک خاندان نے سنائی