بہرحال اب عمران خان بچتے نظر نہیں آتے

بہرحال اب عمران خان بچتے نظر نہیں آتے
وزیر اعظم عمران خان نے تین، چار سال بڑے دھڑلے سے حکومت کی ہے۔ یوں کہا جائے کہ ان کے سوا واقعی کوئی آپشن نہیں تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کو لانے سے پہلے ان کے لئے بہت کام کیا گیا تھا۔ ایک وقت تھا کہ عمران خان صاحب کا جلسہ اتوار کی شام ہو تو ہفتے کی رات 12 بجے پہلی خبر لگتی تھی کہ پنڈال سج گیا۔ پھر اتوار کی صبح اٹھتے ہی آپ ٹی وی کھول کر دیکھیں تو ہر خبروں کے بلیٹن میں کرسیاں لگ گئیں، کپتان کے کھلاڑی آنے لگے، ٹائیگرسز نے بھی رنگ بکھیر دیے، بار بار پنڈال کو اوپر، نیچے، آگے پیچھے سے دکھایا جاتا، کرین پر ایک صحافی کو چڑھایا جاتا جو عموماً خاتون ہوتیں اور وہ بار بار تازہ ترین اپ ڈیٹ دیتیں۔ ایک تو بیچاری گر بھی گئی تھیں۔ رپورٹرز مسلسل بیپرز کے لئے تیار رہتے۔ خان صاحب کوئی غلطی کر دیتے تو جلد ہی کوئی سینیئر اینکر انہیں اپنے پروگرام میں لے کر معاملے کو نیا ٹوئسٹ یا سپن، جو بھی موقع کی مناسبت سے بہتر ہو، دینے کا موقع فراہم کرتا۔ عموماً یہ نیک کام حامد میر صاحب کرتے تھے لیکن دوسرے بھی ان پر سبقت لے جانے کی کوششیں جاری رکھتے۔

الیکشن کا وقت قریب آیا تو عمران خان کے سب سے بڑے مخالف کو پہلے تو حکومت سے ہی نہیں نکالا گیا بلکہ اس کو نااہل کر کے سیاست سے آؤٹ کیا گیا۔ یہ نااہلی اس کیس میں ہوئی جس میں یہ استدعا ہی نہیں تھی کہ ان کا اقامہ چیک کیا جائے۔ کرپشن ڈھونڈنے کے لئے مقدمہ لگایا گیا تو اس جج کو اس وقت تک ریٹائر نہ ہونے دیا گیا جب تک کہ اس نے فیصلہ نہ دے دیا۔ کہ کہیں بات الیکشن تک ہی نہ چلی جائے۔ دوسرے جج صاحب، اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے، اب تک کی صورتحال کے مطابق اپنی ایک متنازع ویڈیو کے ذریعے بلیک میل ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں اور آج تک اس کا فورنزک نہیں ہو سکا۔ الیکشن سے پہلے سینیٹ کا انتظام کیا گیا کہ اس میں ن لیگی ارکان آزاد منتخب ہوں تاکہ ان پر پارٹی پالیسی کا کوئی اطلاق کرنا ویسے ہی ناممکن ہو۔ انتخابات سے قبل ہی پوری پارٹی پر مقدمات بنے۔ آج اسی صاف پانی کیس سے سب بری ہوتے پھر رہے ہیں، یہ وہی کمپنیاں تھیں جن کے نام پر ایک طوفان میڈیا میں کھڑا کیا گیا تھا۔ آشیانہ سے احد چیمہ بری ہو چکے۔ خواجہ برادران کے خلاف کرپشن کے الزامات تھے، وہ بری ہو چکے۔ حنیف عباسی کو عمر قید دی گئی تھی۔ الیکشن سے محض دو دن قبل۔ رات 12 بجے تک عدالت لگا کر۔ وہ کوئی تین سال پہلے لاہور ہائی کورٹ نے معطل کی تھی، آج تک معطل ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ ہو یا جھنگ کے تمام امیدوار جنہوں نے کاغذات جمع کرانے کی آخری تاریخ پر اپنے شیر کے نشان چھوڑ دیے، کس کو نہیں پتہ کہ عمران خان صاحب کے لئے کیا نہیں کیا گیا۔ جس کو شک تھا وہ الیکشن والے دن دور ہو گیا جب رات 11 بجے RTS ایسا بند ہوا کہ جب تک رزلٹ مکمل نہ ہو گئے، یہ رزلٹ جاری کرنے والا نظام بند ہی پڑا رہا۔ پھر جس نے دھاندلی کی شکایت کی، اس وقت کے چیف جسٹس نے کچھ مواقع پر تو خود بیچ میں پڑ کر گنتیاں رکوائیں۔ مری میں ملکی ادارے اور عوام آمنے سامنے آ گئے۔ عمران خان کے سیاسی مخالف تو اپنی جگہ، ان کے بچوں کو بھی عدالتوں اور جیلوں میں گھسیٹا گیا۔ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج تو یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے باقاعدہ ذاتی مداخلت کر کے نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانتیں رکوائیں۔ البتہ وہ کیس اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے اور اس دعوے کی حقانیت تاحال ثابت نہیں ہو سکی۔ نواز شریف تو تھے ہی جیل میں، مریم نواز جب ضمانت پر رہا ہوئیں تو بھی ان کی ویڈیو یا بیان ٹی وی پر چلانا منع تھا۔



سابق صدر آصف زرداری کا چلتا ہوا انٹرویو بند ہو گیا۔ طلعت حسین، مطیع اللہ جان، نصرت جاوید، مرتضیٰ سولنگی اور جانے کون کون نوکریوں سے نکالا گیا۔ سرِ عام حکم دیے جاتے تھے کہ چھ مہینے تو نئی حکومت کو دیں۔ رپورٹنگ کو مثبت رکھیں۔ تنقید کرنے والوں کی تصویری چارٹ بنا کر میڈیا میں دکھائے جاتے تھے۔ اور پھر صادق سنجرانی کے خلاف سینیٹ میں تحریکِ عدم اعتماد کو کون بھول سکتا ہے؟ پی ڈی ایم بنی تو شہباز شریف جیل چلے گئے۔ شاہد خاقان عباسی کو کہہ کر جیل بھجوایا۔ آصف زرداری تو چھوڑیے، ان کی بہن فریال تالپر کو بھی جیل میں ڈالا گیا۔ کیسز کراچی سے اٹھا کر راولپنڈی میں چلوائے گئے۔ خواجہ آصف نے گوجرانوالہ جلسے میں کچھ کہہ دیا جو طبع نازک پہ گراں گزرا تو سات مہینے کے لئے جیل بھجوا دیا۔ جہانگیر ترین سے جان چھڑانا پڑی تو چینی سکینڈل کی انکوائری لگوا دی، علیم خان پر شک گزرا تو جیل بھجوا دیا۔ یعنی اپنے وزرا کو بھی نہ چھوڑا۔ ایسی مطلق العنانیت تو پرویز مشرف اور جنرل ضیا کے بھی شاید نصیب میں نہ تھی۔

اب کہتے ہیں بین الاقوامی سازش ہو رہی ہے نکالنے کی۔ باقی باتیں تو ایک طرف، داد تو اس بات کی دینی چاہیے کہ سازش کا الزام اب بھی نصیبِ دشمناں ہی ٹھہرا۔ لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج وہی علیم خان اور جہانگیر ترین ہیں جن کے پاس ایلچی بھیجے جا رہے ہیں، درخواستیں، منتیں، مناجاتیں، سفارشیں ہو رہی ہیں۔ وہی ارکان جو وقت کی بھیک مانگتے تھے، آج ہاتھ پکڑانے کو تیار نہیں۔ اتحادی تو سودے بازی ہوتے ہی ہیں، اپنے بھی سودائی نکلے۔ اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق حالات کا تجزیہ کیا جائے تو خان صاحب کی بچت کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ترین گروپ نے کہہ دیا ہے کہ مائنس بزدار کے بغیر کوئی بات آگے نہیں بڑھے گی۔ بزدار کو ہٹایا تو دوبارہ حکومت نہیں بن سکے گی۔ علیم خان کے حق میں پرویز الٰہی کی جماعت اور پرویز الٰہی کے حق میں علیم خان و جہانگیر ترین کا گروپ ووٹ نہیں دے سکتا۔ جس کو بھی وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا، ن لیگ کے ووٹوں سے ہی بنایا جائے گا۔ اور اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ ن لیگ کا وزیر اعلیٰ ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ ایک بار یہ حکومت گرے تو دوبارہ بن ہی نہ سکے۔ پنجاب میں بات خود ہی الیکشن کی طرف چلی جائے۔

وفاق میں یہی گروپ نہیں، اور بھی کئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 15 سے 16 پی ٹی آئی ارکان مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں، 4 مولانا کے اور 2 پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ہیں۔ ایک اور گروپ کی بھی اطلاعات ہیں جو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔ اس میں زیادہ تر لوگ فیوڈل قسم کے سیاستدان ہیں۔ اس تمام صورتحال میں وہ جو سب کچھ عمران خان کے لئے کیا کرتے تھے، وہ بھی ساتھ نہیں۔ اگر کسی کو شک تھا تو منگل کو عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے چند گھنٹے بعد حامد میر کا جیو پر واپس آنا تو ایسا واضح اشارہ ہے کہ دیکھنے والے تو دیکھنے والے، اندھوں کو بھی خدا کی وحدانیت کا یقین آ گیا ہوگا۔ لہٰذا لگتا یہی ہے کہ عمران خان کا مکو ٹھپا جا چکا ہے۔ اب آئندہ بات اگلے سیٹ اپ کی ہونی چاہیے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.