اسلام میں فلسفہ عید

غیر مسلم اقوام اپنے ایام عید میں اعتدال کی حدوں سے تجاوز کرلہو و لعب ، عیش و طرب، اکل و شرب میں مشغول ہو جاتی تھیں کیونکہ ان کے نزدیک حاصل زندگی بس یہی کچھ ہے۔ اس کے برعکس اسلامی تہوار اسلامی فلسفہ حیات کی عملی تفسیر پیش کر کے ہمیں اس ضابطے کے ساتھ پوری زندگی وابستہ رہنے کا سبق دیتے ہیں۔

اسلام میں فلسفہ عید

'عید' لفظ عربی کا ہے جس کے معنی پلٹ کر آنا ، خوشی ، دعوت، چہل پہل، اور تہوار کے ہیں جبکہ انگریزی زبان میں اسے فیسیٹول کہتے ہیں۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے۔ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں جبکہ عید کے معنی ہیں دوسری اقوام میں۔ اسی لیے اس تہوار کو عید الفطر کہا جاتا ہے۔

عہد قدیم سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ سال بھر میں ایک یا ایک سے زیادہ دن ایسے ہونے چاہیے جن میں لوگ روز مرہ کا روبارہ حیات کو معطل کر کے عمدہ لباس پہن کر کسی مرکزی جگہ اکٹھے ہوں اور مختلف تقریبات منعقد

کر کے اپنی حیثیت و شوکت کی نمائش کریں ۔ ایسے تہواروں کو مختلف ناموں سے پکارا گیا ہے اور تاریخ اور دن کا تعین بھی قوموں نے اپنی تاریخ کے اہم واقعات کی یاد تازہ رکھنے کے لیے کیا۔

مثال کے طور پر ایرانیوں کی ایک عید یا تہوار کا نام 'مہر جان' ہے  جو فریدون بادشاہ نے اپنی ایک فتح عظیم کی یادگار کے طور پر منانے کا حکم دیا تھا ، اور اہل عرب بھی ایرانیوں کے زیر اثر یہ عید منایا کرتے تھے ۔

بنی اسرائیل نے حضرت موسیؑ کی ہدایت پر فرعون کے 'مظالم سے نجات' کو 'یوم عید' قرار دیا ۔ حضرت موسیؑ اس دن روزہ رکھتے اور عبادت میں مصروف رہتے ۔ رات کو عید کے دوسرے تقاضے یعنی خوشی و مسرت وغیرہ پورے کرتے اور اکل و شرب میں مصروف ہوتے . 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں آمد تک یہ عید منائی جاتی تھی۔ قریش بھی اس دن کی عزت کرتے اور کعبہ پر غلاف چڑھاتے ۔لیکن  جس طرح حضرت موسیؑ کی قوم نے ان کی شریعت کا ستیا ناس کر دیا تھا، اسی طرح اس امت نے عید کی حقیقی روح کو ختم کر دیا تھا۔

غیر مسلم اور قدیم اقوام چونکہ اپنے سامنے کوئی نظر یہ نہ رکھتی تھیں اس لیے ان کی یہ عیدیں سوائے لہو ولعب کے اور کچھ نہ ہوتیں۔

مثال کے طور پر اہل مصر جو عہد قدیم سے یہ عیدیں مناتے چلے آ رہے تھے ۔ ان کی 'عید نوروز " جسے قرآن نے یوم الزينة سے تعبیر کیا ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہے اس موقع پر بہت بڑا میلہ لگتا دور دور رقص و تماشا میں حصہ لینے کے لیے آتے۔ عورتیں بن سنور کر ،خوشبوئیں لگا کر اور بھڑکیلے لباس زیب تن کر کے میلے میں شریک ہوتیں اور مردوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے جسم کے بعض حصوں کو عریاں  رکھتیں۔

اسی طرح سے حضرت ابراہیمؑ کی کی قوم اپنے شہروں میں بڑی شان و شوکت سے اپنی عید مناتی۔ ساری قوم شہر کے باہر ایک جگہ جمع ہو جاتی ۔ مرد و زن کا مخلوط اجتماع ہوتا اور بے حیائی اور بت پرستی اپنی انتہا پر پہنچ چکی ۔ ایسی ہی ایک عید کے موقع پر حضرت ابراہیمؑ  نے اپنی قوم کے بت خانہ کے بتوں کو پاش پاش کیا تھا۔

اسلام دین فطرت ہے لہذا اس نے بھی اپنے نام لیواؤں کے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے خوشی و مسرت کے دو تہوار عنایت کئے ہیں۔ جس کو عربی میں عید کے دن سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ 'زمانہ میں جاہلیت میں عرب نے سال میں عید کے دو دن مقرر کر رکھے تھے۔ جن میں کھیلتے اور خوشی کرتے تھے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان دو دنوں کی بجائے گی جن میں تم عید سمجھ کر کھیلتے ہو اللہ تعالٰی نے تمہیں دوسرے دو دن بدل دیے۔ عید الفطر اور عید الاضحی۔ "

خود نمائی اور دکھاوے کی خوشی منانا اللہ تبارک و تعالیٰ کو ناپسند ہے اور اللہ نے امت محمدیہ صلی اللہ یہ وسلم کو خود نمائی اور دکھاوے سے منع فرمایا ہے۔

ارشاد باری تعالٰی ہے:

إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ ( سورۃ القصص )۔ 

ترجمہ: بے شک اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

خوشی اور تہوار منانے میں بھی اللہ تعالٰی سادگی اور عجز و انکساری کو پسند فرماتا ہے۔ اگرچہ خوشی اور مسرت کا اظہار زندگی کا جزو ہے، چہرہ پر تیوری چڑھانااور مزاج کی خشکی نہ ہی دیانتداری اور تقویٰ کی نشانی ہے اور نہ ہی اسلام نے زندگی کے اس انداز کو پسند فرمایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش مزاج تھے مگر اس میں ریا کاری شامل نہ ہوتی اور آپ نے ان خوشی کے تہواروں کو منانے میں یہی طریقہ اپنانے کا حکم دیا۔

عید الفطر کے مراد ایسا تہوار جو رمضان کے اختتام پر منا یا جاتا ہے۔ یہ عید یکم شوال کو منائی جاتی ہے  جبکہ تہوار کا سلسلہ تین روز تک جاری رہتا ہے۔ اور یہ خوشی کا دن اللہ تعالٰی روزہ داروں انعام کے طور پر پورے مہینے کی عبادت اور محنت کے صلہ میں عنایت کرتا ہے۔ اس دن مسلمان نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو تحفے تحائف دیئے جاتے ہیں اور میٹھے پکوان خاص طور پر اس عید کی سوغات ہیں۔

احکام و مسائل عید :

صدقہ فطر

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کو کھانے کے لیے فرض کیا ہے لہذا جو اسے عید کی نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہوگا اور جو اسے نماز کے بعدا ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔ (سنن ابو داؤد )

اور صدقہ فطر ادا کرنے کا فلسفہ یہی ہے کہ اس خوشی کے موقع پر صاحب استطاعت اپنے غریب بہن بھائیوں کو بھی یاد رکھیں تا کہ وہ بھی اس دن کو خوشی سے مناسکیں۔

اس کا مسنون طریقہ تو یہ ہے کہ اس میں اجتماعیت کا خیال رکھا جائے ۔ تمام مسلمانوں سے جمع کرکے تقسیم کیا جائے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کی وصولی کا سرکاری انتظام تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی خود تقسیم کرنے کی بجائے اجتماعی کھاتے  میں جمع کرواتے تھے۔ بہر حال انفرادی طور پر بھی دیا جا سکتا ہے۔

عید کی رات

عید کی رات بھی عبادت کی رات ہے۔ حضرت ابو امامہ فرماتے ہیں ۔

" جو عید کی رات ایمان کے طور پر ثواب کی طلب کے لیے قیام کرے گا تو اس کا دل قیامت کی ہولناکیوں میں مطمئن پر رہے گا '۔

غسل

عید کے دن غسل مستحب ہے صحابہ و تابعین عید کے دن غسل فرمایا کرتے تھے۔ زاذان کہتے ہیں کہ " ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے غسل کے بارے میں دریافت فرمایا۔ آپ نے فرمایا روز غسل کر سکتے ہو ۔ انہوں نے کیا خاص غسل کے بارے میں فرما ئیں۔ حضرت علی نے فرمایا 'جمعہ کے دن ، عرفہ کے دن ، اضحیٰ کے دن اور عید الفطر کے دن غسل کیا کرو ۔"

کپڑے 

عید کے لیے نئے کپڑے پہننے چاہیے لیکن اگر صاحب استطاعت نہ ہوں اور نئے کپڑے نہ خرید سکتے ہوں  تو  دھلے ہوئے صاف ستھرے کپڑے پہنیں۔

میٹھا کھا نا

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ عید الفطر کے دن نماز عید کے لیے کھجوریں کھائے بغیر نہ نکلتے تھے اور نبی کریمؐ طاق عدد میں کھجوریں کھاتے تھے۔( صحیح بخاری )

اگر کجھوریں میں نہ ہوں کچھ بھی بیٹھا کھا لیا جائے۔

عید گاہ کی طرف پیدل جانا

نماز عید کے لیے عید گاہ کی طرف پیدل جانا بہتر ہے ۔ آنحضرتؐ کا یہی معمول تھا۔

عورتوں کا بھی عید کی نماز کے لیے نکلنا

 ابن عباس سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریمؐ اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو حکم دیے کہ وہ عیدین کے لیے نکلا کریں۔ (اسلمۃ الصحیحہ 2115)

ساتھ حجاب لینے کا حکم تھا ۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے عید الفطر و عید الاضحی کے دن پردہ نشیں جوان عورتوں ونکلنے کا حکم دیا۔

تکبیرات عید

اللہ اکبر اللہ اکبر لا اله الا الله والله اکبر اللہ اکبر والله الحمد

نبی کریمؐ عید الفطر کے دن نکلتے تو تکبیریں کہتے،  یہاں تک کہ نماز کی جگہ پر پہنچ جاتے۔ حتی کہ نماز پوری کر لیتے تو تکبیریں کہنا منقطع کر دیتے ۔ 

ولید بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے اوزاعی اور مالک بن انس سے عید ین میں بلند آواز سے تکبیریں کہنے کے متعلق دریافت کیا تو وہ کہنے لگے جی ہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عید الفطر کے روز امام کے آنے تک بلند آواز سے تکبیریں کہتے تھے ۔

عید گاہ سے واپس آتے ہوئے راستہ بدلنا

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ

جب عید کا دن ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستہ تبدیل کرتے۔ (یعنی ایک راستہ سے جائے تو واپسی کے وقت دوسرا راستہ اختیار کرتے)۔

عید اگرچہ خوشی کا تہوار ہے اورتاہم اسلام میں ان تہواروں کو خوشنودی باری تعالیٰ کے مطابق منانے کے کچھ احکامات اور روایات بھی موجود ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق  ان تہواروں کو منانے  کی اپنی جداگانہ اور امتیازی شان ہے۔ غیر مسلم اقوام اپنے ایام عید میں اعتدال کی حدوں کو پھاند کرلہو و لعب ، عیش و طرب، اکل و شرب میں مشغول ہو جاتی تھیں کیونکہ ان کے نزدیک حاصل زندگی بس یہی کچھ ہے۔

اس کے برعکس اسلامی تہوار اسلامی فلسفہ حیات کی عملی تفسیر پیش کر کے ہمیں اس ضابطے کے ساتھ پوری زندگی وابستہ رہنے کا سبق دیتے ہیں۔

ادیبہ انجم شعبہ تدریس سے 26 برس سے زائد عرصہ سے وابستہ ہیں اور گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج وحدت روڈ لاہور میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اسلامیات رہی ہیں۔