پُرتشدد مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کارکنان کے لئے بڑھتی مشکلات‎

سرفراز خان بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے چند روز بعد پولیس نے مختلف اخبارات میں ان شرپسندوں کی تصاویر جاری کیں جو 9 مئی کے واقعات میں مطلوب تھے۔ ان دہشت گردوں میں ان کی بھی تصویر تھی۔ پولیس نے لاہور کے 84 تھانوں میں ان کی تصویر بھیج دی تھی اور خود انہیں بھی فون کالز آ رہی تھیں کہ گرفتاری دے دیں۔ ان کے گھر پر دس سے بارہ چھاپے بھی مارے گئے۔

پُرتشدد مظاہروں کی رپورٹنگ کرنے والے میڈیا کارکنان کے لئے بڑھتی مشکلات‎

پاکستان میں میڈیا کی آزادی پر قدغن اور صحافیوں پر پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ مہینوں میں حکومت مخالف پُرتشدد مظاہروں کی کوریج کرنے والے میڈیا کارکنوں کے نام شرپسندوں اور دہشت گردوں کی فہرستوں میں شامل کرنے اور ان کی گرفتاریوں نے صحافیوں کے لئے مشکلات بڑھا دی ہیں۔ ایسے حالات میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جانے لگی ہے۔

نوجوان صحافی سرفراز خان لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ بطور کرائم رپورٹر کام کر رہے ہیں۔ سرفراز خان ان صحافیوں میں شامل ہیں جو 9 مئی 2023 کو لاہور میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کئے جانے والے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کی کوریج کر رہے تھے۔ سرفراز خان بتاتے ہیں کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ لاہور کے لبرٹی گول چکر میں موجود تھے جہاں پی ٹی آئی کی طرف سے پارٹی سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا۔ مظاہرین نے اچانک کور کمانڈر ہاؤس کی طرف مارچ کا اعلان کیا تو ان سمیت دیگر میڈیا ورکرز نے بھی مارچ کی کوریج کے لئے جناح ہاؤس جانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔

لاہور کنٹونمنٹ میں داخل ہونے کے بعد فورٹریس سٹیڈیم ناکے پر پی ٹی آئی کارکنان نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا اور وہاں سے یہ مظاہرین گرجا چوک کی طرف بڑھنے لگے۔ اس دوران بعض مشتعل افراد نے آرمی میس، ایم ای ایس کی بلڈنگ سمیت کئی مقامات کو نقصان پہنچایا۔ کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) کے سامنے پہنچے تو یہاں پی ٹی آئی کی قیادت موجود تھی۔ بعض کارکن جناح ہاؤس کے اندر داخل ہوئے تو وہ بھی اپنے موبائل فون پر فوٹیج بناتے ہوئے جناح ہاؤس کے اندر چلے گئے۔ یہاں توڑپھوڑ کی گئی، آگ لگائی گئی۔ وہ تمام ویڈیو جو انہوں نے بنائیں وہ ناصرف مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہوئیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گئیں۔

سرفراز خان بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے چند روز بعد پولیس نے مختلف اخبارات میں ان شرپسندوں کی تصاویر جاری کیں جو 9 مئی کے واقعات میں مطلوب تھے۔ ان دہشت گردوں میں ان کی بھی تصویر تھی۔ پولیس نے لاہور کے 84 تھانوں میں ان کی تصویر بھیج دی تھی اور خود انہیں بھی فون کالز آ رہی تھیں کہ گرفتاری دے دیں۔ میرے گھر پر دس، بارہ چھاپے بھی مارے گئے۔ تاہم وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگے۔ سرفراز خان نے بتایا کہ وہ اپنے دفتر میں رہتے تھے یا پھر کسی دوست کے گھر چلے جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کو جب یہ معلوم ہو گیا تھا کہ میں ایک جرنلسٹ ہوں تو پھر پولیس نے ان کے خاندان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی اور نہ ہی کسی فیملی ممبر کو گرفتار کیا گیا۔

سرفراز نے بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے پھر پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر سے رابطہ کیا۔ انہوں نے آئی جی پنجاب کو ہدایات دیں جبکہ اس کے علاوہ ان کے ادارے جی این این کے بیوروچیف، دیگرساتھیوں، لاہورپریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے رابطہ کیا اور انہیں یقین دلایا کہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی بعض ملکی اور غیر ملکی تنظیموں خاص طور پر کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے ان سمیت دیگر صحافیوں کے لئے آواز اٹھائی اور ان کی خلاصی ہوئی۔

22 مئی 2023 کو پنجاب حکومت کی طرف سے 'پنجاب جرنلسٹس پروٹیکشن کوآرڈی نیشن کمیٹی' تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کی منظوری پنجاب کی کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے لاء اینڈ آرڈر نے دی۔ نگران وزیر اطلاعات عامر میرکے مطابق کمیٹی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تحقیقات اور ان کا ازالہ کرے گی۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل لیگل پنجاب کو کمیٹی کا کنوینئر مقرر کیا گیا ہے۔ کمیٹی میں صدر پی ایف یو جے، صدرپی یو جے اور صدر لاہور پریس کلب بھی شامل ہیں۔ پی جے ایس سی پنجاب چیپٹر اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر فریڈم نیٹ ورک بطور ممبرکمیٹی میں شامل ہیں۔

عامر میرنے کہا کہ کمیٹی صوبے میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ کمیٹی ضلعی پولیس افسران اور صحافیوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر بھی کام کرے گی۔ کمیٹی صحافیوں کے ساتھ ہونے والی کسی بھی زیادتی پر ایکشن تجویز کرے گی۔ کمیٹی صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات کا جائزہ لے کر مناسب اقدامات کیا کرے گی۔ کمیٹی کا مقصد جرنلسٹ کمیونٹی کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ کیئرٹیکر گورنمنٹ میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے۔

کمیٹی نے تمام میڈیا ہاؤسز سے 9 مئی کو ڈیوٹی دینے والے سٹاف کی فہرستیں لیں اور اس طرح میڈیا کارکنان کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے نکالے گئے۔

حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کمیٹی

سرفراز خان کی طرح اس روز صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دینے والے کئی رپورٹرز، کیمرہ مینوں اور دیگر میڈیا سٹاف کو ایسی ہی پریشانی اور مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 8 سے 10 میڈیا کارکنان کو تو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا جبکہ متعدد کو پوچھ گچھ کے لئے تھانوں میں بلایا گیا۔ تاہم لاہور پریس کلب، صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور حکومتی نمائندگان پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل اور اقدامات کے بعد میڈیا ورکرز کو رہا کر دیا گیا جبکہ پولیس کی طرف سے اب انہیں تنگ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے اخبارات میں شائع کیا گیا اشتہار

ضیاء الرحمن وائس آف امریکا کے لئے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے موبائل فون سے جناح ہاؤس سے قیمتی موروں سمیت دیگر اشیا اٹھا کر لے جانے والوں کی ویڈیوز بنائی تھیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تاہم ضیاء الرحمن کا نام بھی پولیس نے شرپسندوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ ضیاء الرحمن بتاتے ہیں کہ ان سے پوچھ گچھ کی گئی اور انہوں نے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بتایا کہ وہ ایک جرنلسٹ ہیں اور وائس آف امریکا کے لئے کام کرتے ہیں تو پھر ان کی خلاصی ہوئی۔ ان کے مطابق صحافیوں کی نمائندہ کسی تنظیم، پریس کلب نے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا، تاہم انہیں اور ان کی فیملی کو جس طرح تنگ کیا گیا، یہ ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔

اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرنے والوں میں ایک خاتون رپورٹر شاہین مشعال بھی شامل ہیں جو ایک ڈیجیٹل نیوز نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ شاہین کا تعلق پنجاب کے شہر فیصل آباد سے ہے تاہم وہ ملازمت کی وجہ سے لاہور میں مقیم ہیں۔ شاہین نے بتایا کہ 9 مئی کو جناح ہاؤس کے سامنے احتجاج اور ہنگاموں کی رپورٹنگ کرنے والی شاید وہ اکیلی خاتون رپورٹر تھیں۔ انہوں نے اپنے موبائل فون سے جناح ہاؤس کے اندر کی جانے والی توڑپھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کی ویڈیوز بنائیں جو وہ اپنے ادارے کو بھیجتی رہیں۔ شاہین بتاتی ہیں کہ رات کے ساڑھے 12 بج چکے تھے، وہ جناح ہاؤس کے اندر تھیں اور انہیں یہ معلوم تھا کہ جناح ہاؤس کے باہر سے میڈیا کو ہٹا دیا گیا ہے۔ جب جناح ہاؤس اور اس کے سامنے کے علاقہ کی روشنیاں بند کر دی گئیں تو وہ اس وقت وہاں سے نکلیں۔ چونکہ وہاں موبائل سگنلز بھی بند کر دیے گئے تھے اور ویڈیو اپنے آفس کو سینڈ نہیں کر سکتی تھیں۔

شاہین کے مطابق اس واقعہ کے چند روز بعد انہیں مقامی پولیس کی طرف سے کال آئی اور تھانے میں پیش ہونے کا کہا گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک جرنلسٹ ہوں لیکن پولیس نے میری بات نہیں سنی اور مسلسل فون کالز آتی رہیں۔ اس دوران میں نے پھر لاہور پریس کلب اور کچھ سینیئر صحافیوں کے توسط سے پولیس سے رابطہ کیا اور اس طرح پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ بند ہوا'۔ انہوں نے بتایا کہ عید سے دو دن قبل بھی انہیں لاہور کے بھاٹی گیٹ پولیس سٹیشن سے کال آئی۔ پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ ان کا موبائل نمبر ان شرپسندوں کی فہرست میں شامل ہے جو 9 مئی کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے مسلسل بات کرتے رہے ہیں۔

شاہین کے مطابق انہوں نے 9 مئی کو ان ہنگاموں کے دوران کسی کو بھی کال نہیں کی تھی اور اپنے آفس سے بھی صرف وٹس ایپ پر رابطے میں تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اس واقعہ بارے اپنی فیملی کو نہیں بتایا تھا لیکن جب معاملہ کلیئر ہو گیا تو انہیں بھی پتہ چل گیا تھا۔ یہ ان کے صحافتی کیریئر کا ایک برا دن تھا جو آج بھی ایک گھناؤنا خواب محسوس ہوتا ہے۔

9 مئی کے واقعات کی کوریج کرنے والے کم و بیش 250 میڈیا کارکنوں کے نام ان افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ ان میڈیا ورکرز کا تعلق مختلف نجی ٹی وی چینلز سے ہے۔ زیادہ تر لاہور کے ہی رہائشی ہیں جبکہ بعض دوسرے شہروں میں رہتے ہیں لیکن نوکری کی وجہ سے لاہورمیں مقیم ہیں۔ یہ وہ میڈیا ورکرز ہیں جو اس شام جناح ہاؤس اور اس کے قریبی ایریا میں موجود تھے اور انہوں نے یہاں اپنے دفاتر یا گھروں میں رابطے کے لئے موبائل فون استعمال کئے تھے۔ جیو فینسنگ کے ذریعے ان کے موبائل نمبرز کی لوکیشن اور کال ریکارڈ حاصل کئے گئے جبکہ کچھ صحافی وہ تھے جو مختلف ویڈیوز میں دیکھے گئے تھے۔

9 مئی کو جناح ہاؤس کی کوریج کرنے والے صحافی

اس صورت حال میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں اور خاص طور پر لاہور پریس کلب نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ارشد انصاری نے بتایا کہ جب پولیس کی طرف سے 9 مئی کو ہونے والی شرپسندی کے الزام میں میڈیا کارکنان کو گرفتار اور ہراساں کئے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں تو انہوں نے فوری طور پر پولیس اور حساس اداروں کے ساتھ رابطہ کیا اور ان کے پاس موجود مطلوب افراد کی فہرستوں سے میڈیا کارکنوں کے نام نکلوائے گئے۔ پی ایف یو جے نے تمام میڈیا ہاؤسز سے ان کے کارکنان کی فہرستیں لیں جو اس دن کوریج کر رہے تھے۔ ان فہرستوں میں شامل افراد کے نام پولیس اور حساس اداروں کے پاس موجود مطلوب افراد کی فہرست سے نکلوائے گئے۔

ارشد انصاری نے کہا کہ پریشان کن صورت حال کے بعد انہوں نے پنجاب کے نگران وزیر اطلاعات عامر میر سے بات کی جنہوں نے یہ معاملہ وزیر اعلیٰ کے سامنے اٹھایا۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ پنجاب نے پنجاب جرنلسٹس پروٹیکشن کوآرڈی نیشن کمیٹی کے نام سے 8 رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی (لیگل)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، پنجاب یونین آف جرنلسٹس، صدر لاہور پریس کلب اور وزارت اطلاعات و نشریات کے نمائندے شامل تھے۔

لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے میڈیا کارکنان کی رہائی اور ان کے نام مطلوبہ افراد کی فہرست سے نکلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ صدر پریس کلب کے مطابق میڈیا ہاؤسز کی طرف سے ملنے والی فہرستیں لاہور پریس کلب کی طرف سے تصدیق کے ساتھ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن کو دی گئیں۔ مجموعی طور پر 250 سے زائد میڈیا کارکنان کے ناموں کی فہرست پولیس کو دی گئی تاکہ ان کے نام مشتبہ افراد کی فہرست سے نکالے جا سکیں۔ لاہور پریس کلب نے میڈیا آرگنائزیشن کی طرف سے فراہم کی جانے والی اپنے کارکنان کی فہرست کو حکومتی نمائندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ شیئر کیا۔ فہرست میں ایسے میڈیا کارکنان کے نام بھی شامل تھے جو لاہور پریس کلب کے رکن نہیں ہیں جن میں ڈی ایس این جی ٹیکنیشن اور ڈرائیور وغیرہ شامل ہیں۔

لاہور پریس کلب کی طرف سے جاری کی گئی میڈیا ورکرز کی فہرست

اعظم چوہدری نے کہا کہ ان اقدامات کے باوجود پولیس نے مزید صحافیوں کو گرفتار کیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ ورکنگ صحافیوں کے خلاف پولیس کی جارحیت کی چھ سنگین شکایات موصول ہوئیں جن کا 9 مئی کے تشدد سے کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ صرف اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کے اس رویے کو سامنے رکھتے ہوئے 23 مئی کو اظہر صدیق ایڈووکیٹ کے توسط سے ڈیجیٹل جرنلسٹ کلب کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی بھیج دی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ پولیس کو صحاٖفیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں گرفتار کرنے سے روکا جائے۔ اس درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پولیس نے 9 مئی کو اپنی صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دینے والے میڈیا کارکنوں کو غیرقانونی طورپر گرفتار کیا ہے اور ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے پولیس کو صحافیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں گرفتار کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا تاہم صحافیوں کو بھی حکم دیا گیا کہ اگر کسی معاملے میں ضرورت پڑے تو وہ تحقیقات میں شامل ہوں۔

لاہور ہائی کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں نہ کئے جانے سے متعلق دی گئی درخواست

آئی جی پولیس پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے بتایا کہ جب انہیں اس صورت حال کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس افسران کو صحافیوں اور دیگر افراد کو ہراساں کرنے کی شکایات کے ازالے کے لیے خصوصی ہدایات جاری کیں جو 9 مئی کے واقعات کے سلسلے میں درج مقدمات میں مطلوب نہیں تھے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ارشد انصاری کہتے ہیں کہ اس وقت جرنلسٹ پروٹیکشن بل کے نفاذ کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں صحافت کا پیشہ اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ یہاں صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور ایسے مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر صحافیوں اور دیگر میڈیا کارکنوں کے تحفظ اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔ 28 مئی 2021 کو صوبائی سطح پر سندھ اسمبلی نے دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس کے بعد نومبر 2021 میں وفاقی سطح پر پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 بنایا گیا۔ تاہم ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی تاحال باقی صوبوں میں یہ قانون اب تک نہیں بن سکا۔ پاکستان نے 2013 میں اقوام متحدہ کے 10 سالہ پلان آف ایکشن آن سیفٹی آف جرنلسٹس (عملی منصوبہ برائے صحافتی تحفظ) پر عمل کرنے کا عہد کیا تھا۔

ضیاء الرحمن کہتے ہیں کہ قوانین کے ساتھ میڈیا کارکنوں کی تربیت اور آگاہی بھی انتہائی ضروری ہے۔ ایسے مواقع جہاں حالات خراب اور کشیدہ ہونے کا خطرہ ہو وہاں ایسے رپورٹرز کو بھیجا جائے جن کا کم از کم پانچ، سات برس کا فیلڈ کا تجربہ ہو۔ نوجوان رپورٹرز کو چاہئیے کہ وہ اگر ایسے کسی حادثے جس طرح 9 مئی کو ہوا اس کی کوریج کے لئے جاتے ہیں تو وہاں موجود کسی سینیئر رپورٹر سے رہنمائی ضرور لیں۔ اسی طرح اپنے ادارے کا شناختی کارڈ گلے میں ڈال کر رکھیں اور کسی ٹی وی چینل کے لئے کام کر رہے ہیں تو ٹی وی کے لوگو والا مائیک ہاتھ میں رکھیں تاکہ آپ کی واضح پہچان ہو سکے۔

میڈیا ورکرز کی گرفتاریوں اور ان کے خلاف مقدمات بنائے جانے کے خلاف صحافیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے آواز بلند کی۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے صحافیوں کو گرفتار کئے جانے کے واقعات کی مذمت کی۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر رانا عظیم نے کہا کہ اپنے صحافتی امور کی انجام دہی کے دوران صحافیوں کو روکنا، ان کے خلاف مقدمات درج کرنا قابل مذمت ہے۔ ایسے ہتھکنڈوں سے صحافیوں کی آواز دبائی نہیں جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے امید ہے کہ یہ کمیٹی مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔

آصف محمود براڈکاسٹ جرنلسٹ اور فری لانسر ہیں۔ وہ ایکسپریس نیوز کے ساتھ بطور رپورٹر وابستہ ہیں۔