سنگاپور کی کمپنی مائن ہارڈ نے 2005 میں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی کے اشتراک سے کراچی کے ساحل پر لگ بھگ 19 ایکڑ زمین پر پاکستان کے پہلے 6 سٹار رہائشی منصوبے کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔ ملکی تاریخ کے دیگر سیکنڈلز کی طرح مائن ہارڈ نے بھی ہاؤسنگ سکیم کے تحت پاکستانی عوام کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا اور کراچی کے عوام سے لگژری فلیٹس کے نام پر اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ 18 سال گزرنے کے باوجود منصوبہ مکمل نہیں ہو سکا جبکہ متعلقہ کمپنی الاٹیز سے مزید رقم کا مطالبہ کر رہی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ، قومی احتساب بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے بعد اب متاثرین نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
سنگاپور سے تعلق رکھنے والی کمپنی نے بورڈ آف انویسٹمنٹ میں رجسٹریشن کروائے بغیر ہی مقامی بینکوں میں اکاؤنٹس کھلوائے اور عوام کو ایڈوانس بکنگ کیلئے پیسے جمع کرانے کا کہا گیا۔ منصوبے میں چونکہ ڈی ایچ اے بھی شراکت دار تھا اس لئے اعتماد کرتے ہوئے 300 سے زائد خاندانوں نے 2.5 ارب روپے مذکورہ اکاؤنٹس میں جمع کروا دیے لیکن مائن ہارڈ نے یہ پیسے منصوبے پر لگانے کے بجائے غیر قانونی طریقے سے بیرون ممالک منتقل کر دیے۔
عمر بھر کی جمع پونجی جمع کرانے والے متاثرین الاٹیز نے ایف آئی اے سے رجوع کیا کہ انہوں نے کریک مرینہ منصوبہ میں اپنے اپارٹمنٹس بک کرائے تھے لیکن 18 سال گزرنے کے باوجود مائن ہارڈ سنگاپور نے طے شدہ مدت میں منصوبہ مکمل کر کے فلیٹس حوالے نہیں کیے۔ ایف آئی اے نے کمپنی مالکان جو سنگاپور کے شہری ہیں، ڈاکٹر شہزاد نسیم اور ان کے بیٹے عمر شہزاد کا نام واچ لسٹ میں شامل کر دیا ہے۔
ایف آئی اے کے اینٹی منی لانڈرنگ ونگ کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق مائن ہارڈ سنگاپور نے کریک مرینہ منصوبے کے ذریعے عوام سے اربوں روپے بٹورے۔ اس کے بعد کمپنی نے غیر قانونی بینک اکاؤنٹ کھولا اور تین ارب روپے سے زائد کی رقم بیرون ملک منتقل کی۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کی تحقیقات میں کمپنی مالکان ڈاکٹر شہزاد نسیم، عمر شہزاد اور سی ای او عائشہ وارثی نامزد ہیں۔ اس سلسلے میں متاثرین نے حال ہی میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان کو بھی خط لکھا ہے اور ان سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 2003 میں ایک پاکستانی نژادسنگاپور کے شہری عمر شہزاد نے مائن ہارڈ کے نمائندے کے طور پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی کے ساتھ ڈی ایچ اے فیز 8 میں 92 ہزار مربع فٹ اراضی کی لیز کیلئے معاہدہ کیا۔ یہ لگ بھگ 19 ایکڑ بنتی ہے اور اس زمین کی موجودہ مالیت 46 ارب روپے ہے۔ اس معاہدے کے تحت مائن ہارڈ نے یہ منصوبہ مکمل کرنا تھا۔ اس سلسلے میں مائن ہارڈ نے کریک مرینہ پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے کمپنی قائم کی۔ اس معاہدے کے تحت سنگاپور کی کمپنی مائن ہارڈ سنگاپور پرائیویٹ لمیٹیڈ ڈی ایچ اے کی جانب سے دی گئی زمین پر لگژری فلیٹس بنانے اور انہیں مارکیٹ کرنے کی ذمہ دار تھی۔ اس معاہدے کے تحت ڈی ایچ اے کو شراکت داری پر تیار شدہ منصوبے میں 15 فیصد فلیٹس ملنے تھے۔
کمپنی نے اس وقت اپنے پروجیکٹ کی مارکیٹنگ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 6 سٹار رہائشی منصوبے میں 24 منزلہ 8 ٹاورز ہوں گے جن میں تین اور چار بیڈ روم اپارٹمنٹس شامل ہوں گے۔
اس سلسلے میں کریک مرینہ نے 20 جون 2007 کو اپارٹمنٹس فروخت کرنا شروع کر دیے اور اس وقت ایک فلیٹ کی قیمت تقریباً 3 کروڑ روپے مقرر کی گئی جو 30 ماہ کی قسطوں میں ادا کرنی تھی۔ کمپنی نے یہ لگژری اپارٹمنٹس 31 دسمبر 2009 تک مکمل کر کے لوگوں کے حوالے کرنے تھے۔ مقررہ مدت میں اس منصوبے کی تکمیل تو نہ ہو سکی لیکن اسی عرصہ کے دوران بکنگ کے علاوہ صارفین سے مزید 70 فیصد رقم وصول کی گئی جو تقریباً 1.5 کروڑ روپے بنتی ہے۔
منصوبے پر کام شروع نہ ہوا تو ڈی ایچ اے اور کریک مرینہ نے اس معاہدے میں 5 مئی 2005 کو پہلی ترمیم کی جس کے تحت یہ پروجیکٹ 2 مرحلوں میں مکمل ہونا طے پایا جس کے تحت ایک کے بجائے 2 ٹاورز بنانے پر اتفاق ہوا۔ اس معاہدے میں ترمیم کے بعد ڈی ایچ اے نے کریک مرینہ پاکستان کے نام 19 ایکڑ زمین بھی سب لیز کر دی لیکن معاہدے میں ترمیم کے باوجود یہ پروجیکٹ مکمل نہ ہو سکا۔
معاہدے میں دوسری ترمیم ڈی ایچ اے اور کریک مرینہ کے درمیان 4 جون 2009 کو کی گئی۔ اس ترمیم کے مطابق مائن ہارڈ نے ڈی ایچ اے کو ایک ارب روپے کی ادائیگی کرنی تھی اور نیٹ فلور ایریا 15 فیصد سے کم ہو کر 3.75 فیصد ہو جانا تھا۔ اس نئے معاہدے کے تحت اس منصوبے کو 3 مرحلوں میں مکمل کر کے ڈلیور کیا جانا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق کریک مرینہ کا پہلا مرحلہ جون 2011، دوسرا مرحلہ دسمبر 2011 اور تیسرا مرحلہ جون 2012 میں مکمل ہونا تھا لیکن کمپنی نے اس دوران بھی پروجیکٹ مکمل نہیں کیا اور ڈی ایچ اے کو ایک مرتبہ پھر دھوکہ دیا۔
2010 میں اس پروجیکٹ پر تعمیراتی کام بند ہو گیا۔ کریک مرینہ پرائیویٹ لمیٹیڈ کے عہدیداروں نے اس وقت کہا کہ اپنے کارکنوں کی جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے چینی تعمیراتی کمپنی بھاگ گئی ہے۔ چینی کمپنی ایک ارب روپے کے پرفارمنس بانڈ کی پابند تھی۔ اس بانڈ کے ضبط ہونے کے بعد اسے کیش کرا کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرا دیا گیا۔ واضح رہے کہ اس بانڈ کی رقم کیلئے ڈی ایچ اے، ڈویلپرز اور خریداروں نے دعویٰ کیا تھا۔
2005 میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ 6 سال بعد مکمل طور پر بند ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ڈی ایچ اے نے مائن ہارڈ اور کریک مرینہ کے مالکان کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائرکر دیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ اس منصوبے میں پبلک فنڈ میں خردبرد کے علاوہ الاٹیز سے وصول کی گئی رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے سنگاپور بھیج دی گئی ہے۔
اپریل 2011 میں سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ چینی کمپنی کے بانڈ سے ایک ارب روپے ڈویلپرز کو دیے جائیں تاکہ تعمیراتی کام دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
اس دوران چند الاٹیز نے ایک کمیٹی بنائی اور اس معاملے کے حل کیلئے ڈی ایچ اے اور کریک مرینہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ اس پروجیکٹ کے ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر شہزاد نسیم ہیں۔
اس وقت جب اس کمیٹی نے ڈاکٹر شہزاد نسیم سے ای میل کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو کمیٹی کو ڈاکٹر شہزاد کے وکیل کی جانب سے وارننگ موصول ہوئی اور کہا گیا کہ کریک مرینہ پروجیکٹ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں اور اگر ڈاکٹر شہزاد سے مزید رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ہتک عزت کا مقدمہ درج کیا جائے گا اور پھر اس کمیٹی کے 15 ارکان کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا گیا۔
اس کے بعد کمیٹی کے ارکان نے مئی 2012 میں ڈاکٹر شہزاد نسیم سے دبئی میں ملاقات کی۔ ڈاکٹر شہزاد نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈی ایچ اے اس منصوبے کیلئے تعاون نہیں کر رہا۔ اس موقع پر شہزاد نسیم نے کمیٹی ممبران سے اتفاق کیا کہ اگر کمیٹی ممبران مزید فنڈز جاری کرنے کیلئے تعاون کریں تو 3 سال کے اندر اپارٹمنٹس ان کے حوالے کر دیے جائیں گے۔
2014 میں ڈی ایچ اے نے سنگاپور کے شہری ڈاکٹر نسیم شہزاد، کریک مرینہ پروجیکٹ اور دیگر کمپنیوں کے خلاف مقدمہ درج کراتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نسیم شہزاد اور دیگر نے الاٹیز سے وصول کی جانے والی 3 ارب روپے سے زائد کی رقم غیر قانونی طریقے سے باہر منتقل کی۔
طویل عرصے کی قانونی جنگ کے بعد ڈی ایچ اے اور کریک مرینہ نے اس پروجیکٹ کے معاہدے میں تیسری ترمیم کی۔ 18 جون 2019 کو ہونے والی اس ترمیم کے تحت اس پروجیکٹ کے تمام فنڈز ایک Escrow Account میں رکھے جائیں گے اور اس منصوبے کو تیز رفتاری سے مکمل کیا جائے گا۔ اس ترمیم کے مطابق اس دفعہ تیار پروجیکٹ پر ڈی ایچ اے کا حصہ پھر سے 15 فیصد طے ہو گیا۔ اب تیار ٹاورز میں ڈی ایچ اے کا حصہ 15 فیصد ہونا تھا۔
2019 کے اس معاہدے کے مطابق ڈی ایچ اے نے نا صرف اضافی ٹاورز کی تعمیر کرنے کی اجازت دی بلکہ فلورز میں بھی اضافہ کرنے کی اجازت دے دی جس کے بدلے میں اب کریک مرینہ اور مائن ہارڈ سنگاپور الاٹیز کو جواب دہ ہوں گی اور ڈی ایچ اے بری الذمہ ہوگا۔ ڈی ایچ اے نے فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کریک مرینہ کو 19 ایکٹر زمین لیز پر دینے کی بھی اجازت دی جس زمین کے بدلے میں ڈی ایچ اے کو سنگاپور کی کمپنی کی جانب سے ایک روپے کی بھی ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔
نئے معاہدے کے مطابق پروجیکٹ کی ڈیڈلائن کو بڑھا دیا گیا اور پروجیکٹ کا پہلا حصہ جون 2022، دوسرا حصہ جون 2023 اور تیسرا حصہ جون 2024 میں مکمل کر کے ہینڈ اوور کیا جانا تھا۔
کمپنی نے ڈی ایچ کے ساتھ تیسرے معاہدے کے بعد الاٹیز کے ساتھ ایک اور کھیل شروع کر دیا۔ کمپنی نے عائشہ وارثی نامی خاتون کو کریک مرینہ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر تعینات کیا اور نیا سٹاف رکھ کر کمپنی کے باقی ماندہ اپارٹمنٹس بھی فروخت کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ جن الاٹیز نے 2003 میں بکنگ کرائی تھی اور رقم بھی جمع کروا دی تھی انہیں نوٹس بھیجے گئے کہ آپ مزید رقم جمع کرائیں ورنہ آپ کی بکنگ کینسل کر دی جائے گی۔ جو اپارٹمنٹس بک نہیں ہو سکے تھے ان کی قیمت میں کئی گنا اضافہ کر کے ان کی فروخت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور یکم جولائی 2023 کو کریک مرینہ کی سی ای او نے استعفیٰ دے دیا۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق کریک مرینہ سنگاپور پاکستان میں رجسٹرڈ کمپنی نہیں تھی اور نا ہی بورڈ آف انویسٹمنٹ میں رجسٹرڈ تھی۔ منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 اور کمپنیز ایکٹ 2017 کے تحت کوئی غیر ملکی کمپنی پاکستان میں رجسٹرڈ نہ ہو تو بینک اکاؤنٹ نہیں کھول سکتی لیکن سنگاپور کے شہری ڈاکٹر شہزاد نسیم نے مقامی بینک کے سٹاف کی ملی بھگت سے بینک میں کریک مرینہ سنگاپور کے نام سے اکاؤنٹ کھلوایا اور اس اکاؤنٹ کے ذریعے یہ رقم باہر بھیجی گئی۔
ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق کریک مرینہ سنگاپور نے الاٹیز سے موصول ہونے والی رقوم مختلف شخصیات کو منتقل کیں جن میں ندرت مند خان، عائشہ وارثی، سلمان مند، ڈاکٹر شاہد نسیم اور عمر شہزاد کے نام شامل ہیں۔ منتقل کی گئی یہ رقوم کریک مرینہ پرائیویٹ لمیٹڈ اور کریک مرینہ سنگاپور کی فنانشل اسٹیٹمنٹ میں بھی شامل نہیں تھی۔ ایف آئی اے کے مطابق غیر قانونی اکاؤنٹس کے ذریعے رقم کی خردبرد منظم منصوبے کے تحت عمل میں لائی گئی۔
متاثرین کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو لکھے گئے خط کے مطابق آفتاب قریشی نامی شخص کے ذریعے 12 لاکھ ڈالر سے زائد کی رقم پاکستان سے باہر بھیجی گئی جو کہ سنگاپور کے شہریوں ڈاکٹر شہزاد نسیم، رچرڈ چارلز کوونٹری، سید اصغر علی شاہ، اکبر علی شاکر اور دیگر لوگوں نے وصول کی۔
آفتاب قریشی نے مزید 15 لاکھ ڈالر کی رقم ایم سی بی زیب النساء برانچ کے ایک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جس کے بعد یہ رقم کمپنی کے آف شور اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی گئی۔
اس سلسلے میں ہونے والی تحقیقات کے مطابق اس پروجیکٹ کی مالک شیل کمپنی تھی اور اس کمپنی نے اپنی ایک ذیلی کمپنی بنائی جس کا مقصد الاٹیز سے وصول کی گئی رقم غیر قانونی طریقہ سے باہر بجھوانا تھا تا کہ ڈی ایچ اے یا کوئی بھی فریق کسی بھی طریقے سے شیل کمپنی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے۔
سنگاپور کی کمپنی مائن ہارڈ نے ڈویلپرز کے طور پر کبھی کام نہیں کیا اور اپنے میمورنڈم آف ایسوسی ایشن اور میمورنڈم آرٹیکل کے مطابق صرف سنگاپور کے اندر انجینئرنگ سروسز فراہم کر سکتی تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شہزاد نسیم نے ڈی ایچ اے کو اندھیرے میں رکھا اور ڈی ایچ اے نے ان کمپنیوں کو اراضی لیز پر دی جن کا ایک ہی شخص مالک تھا جو کہ مائن ہارڈ سنگاپور کا ملازم تھا۔ سکیوریٹی اینڈ ایکسچینج کے ریکارڈ کے مطابق کریک مرینہ پرائیویٹ لمیٹڈ کی مکمل ملکیت سنگاپورکی کمپنی کریک مرینہ سنگاپور پرائیویٹ لمیٹڈ کے پاس تھی اور کریک مرینہ سنگاپور کی مکمل ملکیت ایک شیل کمپنی سوفٹرن ہولڈنگ لمیٹڈ (Swiftearn Holding Limted) کے پاس تھی جو کہ خفیہ طور پر برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ تھی۔
اس کے بعد پاناما پیپرز میں یہ بات سامنے آئی کہ سنگاپور سے تعلق رکھنے والے ایک برطانوی بینکر جان جارج کولن کریک مرینہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ پاناما پیپرز کے مطابق جان جارج ایک بینکر ہیں اور آف شور کمپنیوں کی تشکیل اور منی لانڈرنگ کے ماہر ہیں۔
اس سلسلے میں ایک متاثرہ الاٹی دانش غازی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ انہوں نے 2 کروڑ روپے کا اپارٹمنٹ بک کروایا تھا جس میں سے 4 سال کے دوران 1.68 کروڑ روپے وہ ادا کر چکے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ مجموعی قیمت میں سے صرف 40 لاکھ روپے ادا کرنے تھے لیکن بلڈرز نے مجھ سے اضافی رقم کی ڈیمانڈ کی۔ میں نے اضافی پیسے ادا کرنے سے انکار کیا تو بلڈرز نے میری بکنگ ہی منسوخ کر دی۔
اب یہ معاملہ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں زیربحث ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ، نیب اور ایف آئی اے سے مایوس ہونے والے الاٹیز کو اس فورم سے کیا جواب ملتا ہے۔