جنرل شفاعت نے لندن، دبئی اور امریکہ میں لگژری فلیٹس کیسے خریدے؟

جنرل شفاعت اور ان کے اہل خانہ نے پہلے پاکستانی ٹیکس حکام سے ان جائیدادوں کو چھپائے رکھا، پھر اداروں اور عوام سے حقائق اور ان جائیدادوں کے حصول کے ذرائع سے متعلق مسلسل غلط بیانی کی۔ کیا کوئی جنرل شفاعت سے پوچھے گا کہ ان کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟

جنرل شفاعت نے لندن، دبئی اور امریکہ میں لگژری فلیٹس کیسے خریدے؟

فیکٹ فوکس نے سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے ملٹری سیکرٹری اور کور کمانڈر لاہور رہنے والے جنرل شفاعت اللہ شاہ کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کی تفصیلات جاری کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ کور کمانڈر لاہور تھے تب انہوں نے لندن میں ایک اپارٹمنٹ خریدا جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد دبئی اور نیویارک میں مہنگے اپارٹمنٹ خریدے مگر کئی سالوں تک انہیں پاکستان انکم ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا۔ ان اپارٹمنٹس کو خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئی، اس بات کی کھوج میں فیکٹ فوکس نے تحقیق کی ہے۔ اس سے قبل فیکٹ فوکس سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں کی تفصیلات بھی منظرعام پر لا چکا ہے۔

لندن کا لگژری اپارٹمنٹ

2007 میں جب جنرل شفاعت کور کمانڈر لاہور تھے تب انہوں نے ایک بھارتی کاروباری شخصیت اکبر آصف سے جو فلم ڈائریکٹر کے آصف کے صاحبزادے ہیں، لندن کے ایک مہنگے علاقے میں اپنی بیوی فریحہ شاہ کے نام پر ایک قیمتی اپارٹمنٹ حاصل کیا جو ایک آف شور کمپنی کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ اکبر آصف نے یہ فلیٹ 2006 میں 6 لاکھ 76 ہزار 250 پاؤنڈ میں خریدا تھا جبکہ جنرل شفاعت کا دعویٰ ہے کہ 2007 میں انہوں نے اس اپارٹمنٹ کے بدلے میں بھارتی بزنس مین کو محض 3 لاکھ 10 ہزار پاؤنڈ ادا کیے تاہم جنرل شفاعت اس ادائیگی کا کوئی تحریری ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ جنرل شفاعت نے مؤقف اختیار کیا کہ رقم کی ادائیگی انہوں نے پاکستان میں موجود ایک شخص کو کی تھی لیکن ان کے پاس اس ادائیگی کا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ اگر ان کا یہ دعویٰ مان لیا جائے تو ان پر منی لانڈرنگ کا الزام بھی لگ سکتا ہے۔

انکم ٹیکس دستاویزات کے مطابق جنرل شفاعت نے 2007 میں اپنی سالانہ آمدنی تقریباً 8 لاکھ روپے جبکہ 2008 میں 7 لاکھ 90 ہزار بتائی۔ اس حساب سے انہوں نے 2007 میں 73 ہزار 785 روپے جبکہ 2008 میں محض 59 ہزار روپے سالانہ ٹیکس دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2007 اور 2008 میں جنرل شفاعت کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے کہ یہ قیمتی اپارٹمنٹ خرید پاتے۔

2016 میں جب پاناما پیپرز لیک ہوئے تو اس میں مذکورہ اپارٹمنٹ کی مالک آف شور کمپنی کا نام بھی آ گیا مگر کمپنی کس کی ملکیت ہے اس بارے کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ 2017 میں جنرل شفاعت کی اہلیہ فریحہ شاہ اور بیٹے رضا شاہ نے پہلی مرتبہ لندن اپارٹمنٹ کی ملکیت ظاہر کی اور بتایا کہ یہ اپارٹمنٹ ان دونوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ دونوں نے ٹیکس گوشواروں میں بتایا کہ الگ الگ ایک لاکھ 55 ہزار ڈالر کی رقم انہوں نے اپارٹمنٹ حاصل کرنے کیلئے خرچ کی۔ رضا شاہ نے بتایا کہ یہ رقم ان کے والد یعنی جنرل شفاعت نے انہیں تحفے میں دی جبکہ فریحہ شاہ نے بتایا کہ یہ رقم ان کو ان کے والد برگیڈیئر ریٹائرڈ لیاقت اسرار بخاری نے تحفے میں دی تھی۔ مگر جنرل شفاعت نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں بیٹے کے نام اس تحفے کا کہیں ذکر نہیں کیا جبکہ فریحہ شاہ کے والد دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔

 2021میں پنڈورا پپیرز میں نہ صرف اپارٹمنٹ کی مالک آف شور کمپنی کی ملکیت کا پتا چلا جو کہ فریحہ شاہ اور ان کے بیٹے رضا شاہ کے نام تھی بلکہ یہ تفصیل بھی سامنے آ گئی کہ درحقیقت جنرل شفاعت نے یہ اپارٹمنٹ کب حاصل کیا تھا۔ بعد ازاں، جنرل شفاعت نے لندن اپارٹمنٹ کی خریداری درست ثابت کرنے کے لیے متعدد دعوے کیے۔

لندن فلیٹ سے متعلق جنرل شفاعت کے مختلف دعوے

1۔ اپارٹمنٹ بیٹے رضا شاہ کی برطانیہ میں تعلیم کیلئے خریدا۔

حالانکہ جنرل شفاعت کے واحد بیٹے رضا شاہ 2007 میں اپارٹمنٹ حاصل کرتے وقت صرف 14 سال کے تھے۔ بعدازاں انہوں نے تعلیم بھی برطانیہ کے بجائے نیویارک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔

2۔ بیٹی کے لیے فلیٹ خریدا جو برطانوی شہری ہے۔

جنرل شفاعت کی بیٹی ماہا شاہ مئی 1985 میں پیدا ہوئیں جبکہ برطانوی امیگریشن قوانین کے مطابق 1983 کے بعد سے کسی کو بھی برتھ نیشنیلیٹی رائٹ نہیں دیے جاتے۔

3۔ بیرون ملک اثاثے فوجی حکام اور ایف بی آر کے سامنے ڈکلیئر کیے تھے۔

اگر انہوں نے جی ایچ کیو میں فوجی حکام کو اپنے اثاثوں کے بارے میں بتایا تھا تو فوج نے ان سے ذرائع آمدن کے متعلق کیوں نہیں پوچھا تھا؟ اگر ایسا ہے تو یہ حقیقت ایک اور پنڈورا باکس کھول سکتی ہے۔

4۔ ڈی ایچ اے لاہور میں اپنے نام کا پلاٹ بیچ کر لندن اپارٹمنٹ خریدا۔

جنرل شفاعت کے دعوے کے برعکس ان کی اہلیہ نے ظاہر کیا ہے کہ اپارٹمنٹ خریدنے کیلئے رقم دراصل ان کو ان کے والد نے بطورتحفہ دی تھی۔

5۔ لندن فلیٹ بیوی کے نام پر اس لیے خریدا کیونکہ اہلیہ کے نام پہلے کوئی اثاثہ نہیں تھا۔

ٹیکس ریکارڈ کے مطابق 2006 میں جنرل شفاعت جب جنرل مشرف کے ملٹری سیکرٹری تھے تب انہوں نے اہلیہ فریحہ شاہ کو اسلام آباد میں ایک کنال کا پلاٹ تحفے میں دیا تھا۔ یہ پلاٹ فریحہ شاہ نے 2019 کے سالانہ ٹیکس گوشواروں میں ظاہر بھی کیا ہے۔

دبئی میں اپارٹمنٹ

ریٹائرمنٹ کے بعد 2011 میں جنرل شفاعت نے دبئی میں بھی ایک اپارٹمنٹ خرید لیا مگر ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا۔ 2016 کے آخر میں جب دبئی لیکس آئیں تو 2017 میں جنرل شفاعت اور ان کے بیٹے نے یہ اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کر دیا۔ اگرچہ ٹیکس دستاویزات میں جنرل شفاعت اور ان کے بیٹے نے دبئی میں مختلف ایڈریسز پر اپنے اپارٹمنٹ ظاہر کیے تاہم انہوں نے فیکٹ فوکس کو بتایا کہ دبئی میں ان کا اور ان کے بیٹے کا ایک ہی اپارٹمنٹ ہے۔

جنرل شفاعت نے دعویٰ کیا کہ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انہیں دبئی کی ایک آئی ٹی کمپنی 'ٹیکسپو' میں بورڈ ممبر کے طور پر نوکری مل گئی تھی جس سے ملنے والی ایک سال کی تنخواہ سے انہوں نے یہ اپارٹمنٹ خریدا۔ تاہم دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 اور خصوصاً 2011 میں زیادہ تر وقت جنرل شفاعت پاکستان یا دبئی میں نہیں بلکہ امریکہ میں رہے۔ ایسے میں بغیر کوئی بھی کام کیے اتنی زیادہ تنخواہ ملنا جس سے دبئی میں باقاعدہ اپارٹمنٹ ہی خریدا جا سکے، ممکن نظر نہیں آتا۔

ٹیکس ریکارڈ کے مطابق 2011 میں ان کی کل سالانہ آمدن سالانہ 6 لاکھ روپے تھی اور انہوں نے 50 ہزار 622 روپے سالانہ ٹیکس ادا کیا تھا۔ بعد کے ایک سال کے سالانہ ریٹرنز کے مطابق انہیں دبئی سے کرایے کی مد میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے ملے تھے۔

2017 کے ٹیکس ریٹرنز میں انہوں نے فلیٹ نمبر 202، جے-5، دبئی کا ایڈریس ظاہر کیا۔ یہ اپارٹمنٹ 2011 میں 1.618 اماراتی درہم یعنی 4 لاکھ 40 ہزار 905 امریکی ڈالرز میں خریدا گیا۔ اسی سال جنرل شفاعت کے بیٹے رضا نے بھی دبئی میں فلیٹ نمبر 74، اوبلیک زیرو، سیکنڈ فلور، جے-5، السفوح، فرسٹ دبئی ڈیکلیئر کیا اور اس کی اپنے والد کے ساتھ مشترکہ ملکیت بتائی۔ تاہم انہوں نے اس اپارٹمنٹ کی قیمت اور تاریخ خرید نہیں بتائی۔

جنرل شفاعت نے اعتراف کیا کہ ان کی ٹیکسپو کمپنی سے آمدنی کبھی بھی پاکستان نہیں لائی گئی۔ اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کرنے کے چار سال بعد جنرل شفاعت نے 2021 کے سالانہ ریٹرنز میں دبئی کا ایک فارن کرنسی بنک اکاؤنٹ بھی ظاہر کر دیا جس میں انہوں نے بتایا کہ دبئی اپارٹمنٹ کے کرائے کے ایک کروڑ 40 لاکھ روپے پڑے تھے۔ رضا نے بھی اسی سال ڈیکلیئر کیا کہ اس کے حصے کا کرایہ بھی اس کے والد کے بنک اکاؤنٹ میں آیا ہے۔

نیویارک میں اپارٹمنٹ

2012 میں جنرل شفاعت نے امریکی شہر نیویارک کے قیمتی ترین علاقے مینہٹن ڈاؤن ٹاؤن میں 1.4 ملین ڈالر کا ایک لگژری اپارٹمنٹ خریدا۔ پاکستان کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق اس سال جنرل شفاعت نے 7 لاکھ 20 ہزار کی آمدن ظاہر کی اور پورے سال کا ٹیکس 48 ہزار 500 روپے ادا کیا۔ اپریل 2012 سے دسمبر 2021 تک وہ اکیلے اس اپارٹمنٹ کے مالک رہے۔ بعد میں یہ اپارٹمنٹ خود کو، اپنی بیوی اور بیٹے کو فروخت کر دیا۔

ٹرانزیکشن ریکارڈز کے مطابق 2012 میں جنرل شفاعت نے اتنی بڑی رقم پاکستان سے باہر نہیں بھیجی۔ ان کے ٹیکس ریکارڈز میں بھی ایسی کسی ٹرانزیکشن کا ذکر نہیں ملتا۔

پاناما لیکس اور دبئی لیکس آنے کے بعد مجبور ہو کر جنرل شفاعت کو لندن اور دبئی والے اپارٹمنٹس ظاہر کرنے پڑے تاہم نیویارک کا اپارٹمنٹ انہوں نے پھر بھی ظاہر نہیں کیا۔

جنرل شفاعت اور ان کے اہل خانہ نے پہلے پاکستانی ٹیکس حکام سے ان جائیدادوں کو چھپائے رکھا، پھر اداروں اور عوام سے حقائق اور ان جائیدادوں کے حصول کے ذرائع سے متعلق مسلسل غلط بیانی کی۔ کیا کوئی جنرل شفاعت سے پوچھے گا کہ ان کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے؟