نیشنل سکیورٹی پالیسی (این ایس پی) کی منظوری قومی سلامتی کمیٹی کی منظوری کے ایک دن بعد 28 دسمبر کو وفاقی کابینہ نے دی تھی۔ پالیسی اس سمت کا تعین کرتی ہے کہ آنے والے سالوں میں ملک کو کیا رخ اختیار کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بنانے والوں نے قومی سلامتی کے لیے شہری رائے پر مبنی نقطہ نظر اختیار کیا اور اقتصادی سلامتی پر خصوصی زور دیا۔ قومی سلامتی پالیسی قومی ہم آہنگی، معیشت، دفاع، داخلی سلامتی، خارجہ پالیسی اور انسانی سلامتی کے شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔
اسی قومی سلامتی کی پالیسی میں ملک کے مختلف مسائل پر زور دیا گیا ہے۔ اگر اس پالیسی کو ٹھیک سے لاگو کیا جائے تو عام شہری کی زندگی آسان بن سکتی ہے۔ اور آخر قومی سلامتی کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس ملک کی قوم سلامت رہے۔
پاکستان میں اس وقت بیشتر مسائل ہیں جن کو ہم چھوٹے مسائل نہیں کہہ سکتے۔ یہ وہ مسائل ہیں جو عام شہری کی زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ پھر اس کے لیے حکمران طبقے بھی کچھ نہیں کرتے۔ ان مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ ایک طرف تو آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے پھر اس پر قابو پانے کے لیے کوئی حکمت عملی بھی نہیں اپنائی جا رہی۔ جتنی زیادہ آبادی ہوگی اتنے زیادہ مسائل ہوں گے۔ صاف صفائی، روٹی، کپڑا، مکان وغیرہ ہر شہری کا حق ہے جسے اس ملک کی حکومت ان شہریوں کو فراہم کرتی ہے۔
پاکستان نے جو ابھی قومی سلامتی کی پالیسی بنائی ہے اس میں آبادی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
ڈان اخبار میں کالم نگار زاہد حسین لکھتے ہیں کہ آبادی کے انتظام کے ایک مختصر حوالے کے علاوہ، حال ہی میں شروع کی گئی انٹیگریٹڈ نیشنل سیکیورٹی پالیسی (NSP) میں اس مسئلے کی سنگینی کو مناسب طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے جس کے ہمارے معاشرے پر غیر مستحکم اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
طویل مدتی میں، پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 2022 میں 4.70 فیصد اور 2023 میں 4.50 فیصد کے لگ بھگ رہنے کا امکان ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ روزگار مہیا کرنا بھی ایک کھٹن اور مشکل اقدام ہوتا ہے۔ اگر یہ روزگار نوجوانوں کو مہیا کرنے میں ملک ناکام ہو جائے تو وہاں افراتفری پھیل جاتی ہے۔ اس ملک میں چوروں اور لٹیروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 2021 میں پورے ملک میں چوریوں اور ڈکیتیوں میں تیزی سے اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں لگ بھگ 50 لوگ مارے گئے۔ کراچی کے علاوہ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی اس تعداد میں ایک ہولناک اضافہ ہوا۔
اس کی وجہ صرف بے روزگاری ہے اور افسوس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ اس کی روک تھام کے لیے کچھ مثبت اقدامات بھی نہیں لیے جاتے۔
بڑھتی ہوئی آبادیوں کے سبب فصلیں کم ہوتی جا رہی ہیں اور ہوسنگ سوسائٹیز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جن علاقوں کو ہم دور دراز کے علاقے سمجھ کر ہلکا لیتے ہیں ایک وقت میں وہاں رہنے کو جگہ بھی نہیں ملے گی۔
پاکستان کے لیے آبادی کا مسئلہ سب سے اہم ہونا چاہیے لیکن کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی کیونکہ ان اسمبلیوں پر ایسے لوگوں کا غلبہ ہے جن کے اہم مسائل یہ نہیں کچھ اور ہیں۔ یہ لوگ اپنی ساخت کے لئے سیاست کرتے ہیں ناکہ عوام کی بھلائی کے لیے۔
آبادی کی منصوبہ بندی حکومت کی ترجیح نہیں ہے، حالانکہ پالیسیاں موجود ہیں کیونکہ پنجاب پہلا صوبہ ہے جس نے آغاز کیا ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ کس طرح عمل درآمد کیا جائے اور نتائج کیسے حاصل کیے جائیں۔
این ایس پی معاشی ترقی کی جانب ایک شاندار اقدام ہے لیکن بے روزگاری کی بلند شرح کے ساتھ آبادی کی اکثریت جو کہ نوجوانوں کو تشدد، انتہا پسندی کی طرف مائل کرتی ہے۔ غیر منظم آبادی کے مسائل کو نہ صرف قائدین بلکہ معاشرے کی طرف سے بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔
آج کل جدید دور ہے اور اس سوچل میڈیا کے زمانے میں ہر انسان تک ایک بنیادی آگاہی پہنچ ہی جاتی ہے۔ لیکن وہ خود اس کو جان بوجھ کر نظر انداذ کرتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دور میں ایک دودھ پیتے بچے کے بھی بہت سے اخراجات ہیں لیکن پھر بھی وہ نظر انداذ کرتا ہے۔ میرے خیال میں سب سے بڑا مسئلہ ہمارے معاشرے کی اپنی ذات کی ذمہ داری لینے کی ضد میں آمادگی ہے۔ وڈیرے اور جاگیردار بھی اپنے فائدے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
حکومت پاکستان کو بڑھتی ہوئی آبادی جیسے سنگین مسائل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور اس پر قابو پانے کے بہترین حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ پاکستان ابھی جن حالات سے دوچار ہے ان حالات میں سے نکلنے کے آبادی پر قابو پانا بھی ایک اہم ترین اقدام ہوگا۔ آبادی کے حوالے سے بہتر سے بہترین حکمت عملی ہی پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط اور ایک رہنے لائق ملک بنا سکتی ہے۔