قدیم یونانی فلسفی ارسطو نے ایک بار کہا تھا، 'حصول دولت انسانی کوشش کا واحد مقصد نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اسے ہمارے مقاصد کے حصول کا ایک ذریعہ بننا چاہیے'۔ درحقیقت اقتصادی ترقی کسی ملک کی خوشحالی کا بنیادی ستون ہے اور امن و استحکام وہ بنیاد ہے جس پر اس کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا راز امن اور استحکام میں مضمر ہے اور یہ امن کی سرزمین ہے کہ جہاں سرمایہ کاری پھلتی پھولتی ہے، صنعتیں بڑھتی ہیں اور تجارت کے پہیے درستگی اور مقصد کے ساتھ گھومتے ہیں۔
ایڈم سمتھ کے الفاظ میں، 'امن اور خوشحالی انسانی زندگی کی دو عظیم نعمتیں ہیں'۔ اور اس طرح یہ اقتصادی ترقی اور استحکام کے امتزاج میں ہے کہ جب استحکام کا راج ہوتا ہے تو معیشت ترقی کرتی ہے اور ترقی کے فوائد سب کو ملتے ہیں۔ وہ بنیاد جس پر کسی قوم کی عظمت قائم ہوتی ہے۔
پاکستان کی معیشت مشکل حالات سے گزرنے کے باوجود 2024 میں بحالی کے چند حوصلہ افزا اشاریے دکھا رہی ہے۔ ملک مسلسل معاشی استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مالی سال 2024 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 2.6 فیصد ہے۔ درمیانی مدت میں غربت کی شرح 40 فیصد پر مستحکم رہنے کا امکان ہے جبکہ افراط زر کی شرح اسی مدت میں 12 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے اور مالی سال 2024 میں جی ڈی پی کے 0.7 فیصد پر رہنے اور مالی سال 2025 اور مالی سال 2026 میں جی ڈی پی کے مزید 0.6 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ درآمدی کنٹرول میں نرمی نے بھی زرمبادلہ کے ذخائر کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
مزید براں جولائی تا فروری مالی سال 2024 کے دوران مالیاتی کارکردگی نے امید افزا پیش رفت ظاہر کی ہے، بشمول اہداف سے زائد محصولات کی وصولی اور براہ راست ٹیکسوں میں نمایاں اضافہ۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے بھی غیر معمولی اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار 80,000 پوائنٹ کی حد عبور کی جو معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی عکاسی ہے۔ علاوہ ازیں چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) منصوبوں کی بحالی نے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور توانائی کے منصوبوں پر توجہ دینے کے ساتھ معیشت میں نئی جان ڈال دی ہے۔ حکومت کے مثبت اقدامات جیسے کہ خصوصی اقتصادی زونز کے قیام اور خام مال پر ٹیرف میں نرمی نے بھی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ پیش رفت وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں موجودہ حکومت کی مؤثر پالیسیوں اور کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جو اصلاحات کے نفاذ اور معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
جیسے ہی معیشت کی سمت درست ہوتی نظر آئی اس کے ساتھ ہی بعینہٖ 2014 کی طرز پر تحریک انصاف کی ملک دشمن سرگرمیوں میں بھی تیزی آنا شروع ہو گئی ہے۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان کی قرارداد کی ٹائمنگ ملاحظہ ہو کہ عین اس وقت پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی قرارداد منظور ہوئی جب معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور سی پیک فیز 2 شروع ہو چکا ہے۔ تحریک انصاف کے اقدامات جن کا مقصد معیشت کو غیر مستحکم کرنا اور پاکستان میں افراتفری پھیلانا ہے، ناصرف ملکی ترقی کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ پاکستان کے دشمنوں کے مفادات کو بھی پورا کر رہے ہیں۔
تحریک انصاف نے اعلیٰ عدلیہ میں جو سیاسی بھرتیاں کی تھیں وہ بھی ملک میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہیں۔ اور یہ پہلی دفعہ نہیں ہو رہا، اس سے پہلے بھی تحریک انصاف نے 6 فیصد کی شرح سے آگے بڑھتی معیشت کو اور 66 ارب ڈالر کے سی پیک کو اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا پانے والی معیشت کو 2018 سے 2022 میں کامیابی سے ڈبویا ہے۔ سانحہ 9 مئی، جس میں انتشار اور ملک دشمنی کی نئی تاریخ رقم کی گئی، سی پیک کو بند کیا ہے اور طالبان کو افغانستان سے واپس بلا کر پاکستان میں دوبارہ آباد کیا ہے۔ آج جو شمالی علاقوں میں شورش اور بدامنی ہے اور ہمارے فوجی جوان روز شہید ہو رہے ہیں، دوبارہ سے ایک داخلی جنگ پاکستان پر مسلط کی جا رہی ہے۔ کیا اس وطن دشمنی کا حساب عمران خان سے نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے طالبان کو دوبارہ ان علاقوں میں آباد کیا؟ یہ فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان کون ہیں؟ تحریک انصاف کے لیے بیرونی امداد کون لوگ جمع کر رہے ہیں؟ کون لوگ اور کون کون سی ریاستیں ان کی پشت پناہی کر کے ان کو مالی امداد فراہم کر رہی ہیں؟ اور یہ ساری بیرونی امداد تحریک انصاف کن سرگرمیوں میں خرچ کر رہی ہے؟ اس کی تفصیلات قوم کو بتائی جائیں اور وہ جو فنڈز بیرون ملک سے اکٹھا کرتے ہیں ان کو پاکستان کے خلاف لابنگ فرمز کو ہائر کر کے کن مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟ یہ تفصیلات بھی اب قوم کے سامنے رکھنی چاہیے۔
عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس جو امریکہ سے آپریٹ ہو رہے ہیں ان سے جو پاکستان دشمنی کا زہریلا پروپیگنڈا شروع ہے اس کا بھی حساب ہونا چاہیے۔ معاشی استحکام میں خلل ڈال کر اور غیر یقینی صورت حال پیدا کر کے عمران خان اور تحریک انصاف ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنا اور اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہیں قوم کی خدمت سے زیادہ اپنے اور اپنے فنانسرز اور سہولت کاروں کے مفادات کی تکمیل میں دلچسپی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے دشمنوں نے ہمیشہ معاشی تخریب، سیاسی بدامنی اور پروپیگنڈے سمیت مختلف ذرائع سے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے۔
عدم استحکام کی سرگرمیوں میں ملوث ہو کر عمران خان اور تحریک انصاف دوسری بار ان دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں جس میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کو نقصان پہنچانا، سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ تمام محب وطن پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کو پہچانیں، ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والوں کو پہچانیں اور ان کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنا دیں کیونکہ مل کر کام کرنے سے ہی ہم ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان بنا سکتے ہیں۔