'حالات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی جماعت حکومت سنبھالنے اور کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں'

'حالات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں کوئی جماعت حکومت سنبھالنے اور کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں'

پاکستان کی سیاست اس وقت افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ہر طرف  ہنگام کا راج ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو کسی بھی وقت گرائے جانے کے حوالے سے نعرے لگ رہے ہیں تو حکومت اپوزیشن پر لعن طعن کا کوئی موقع جانے نہیں دے رہی۔


پھر کہیں سے یہ آواز آتی ہے کہ کبھی بھی میرے عزیز ہم وطنوں کی آواز سنائی دے گی۔ لیکن پھر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ حکومت اپوزیشن کو ختم کر سکتی ہے نہ ہی اپویشن حکومت کو گرا سکنے میں کامیاب ہے اور سنائی دیتا ہے کہ مارشل لا لگانے والوں کا بھی ایسا کوئی موڈ نہیں۔


ایسے میں پاکستانی سیاست یوں لگ رہی ہے کہ جیسے شطرنج کی ایک ایسی بازی جو کہ تعطل کا شکار ہو۔ ملک کی مایہ ناز صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی اسی حوالے سے لکھا ہے۔


وہ لکھتی ہے کہ اپوزیشن بُزدار سرکار کے خلاف عدم اعتماد لانہیں سکتی جب تک کہ چوہدری پرویز الہی فی الحال پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار بن نہیں سکتے۔





پیپلز پارٹی ق اور ن میں پُل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم پنجاب کا سیاسی کھیل ایک چومکھی لڑائی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔





وزیراعظم کے پاس آج بھی چوہدری پرویز الہی کی صورت وزیراعلی موجود ہیں جو اگلے انتخابات سے پہلے پرفارم کر سکتے ہیں لیکن وزیراعظم تاحال کسی صورت ’وسیم اکرم پلس‘ سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں ن لیگ لمبی دوڑ میں شریک ہونا چاہتی ہے۔





حالات وہاں پہنچ گئے ہیں جہاں بقول چوہدری شجاعت کے کوئی جماعت حکومت سنبھالنے اور کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ اپوزیشن کی سیاسی طاقتیں شاید اُس ایک وقت کا کچھ اور انتظار کریں۔





دوسری جانب لانگ مارچ قریب ہے اور عوام میں غم و غصہ بھی۔ طاقتور حلقے ایک مشکل صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔ دن بہ دن غیر مقبول ہوتی حکومت کا فائدہ اٹھاتے زورآور اپوزیشن جماعتیں عوام کی حمایت سے صفحہ پلٹنے کی کوششوں میں لگی ہیں۔





دس سیاسی جماعتیں اسلام آباد آئیں یا راولپنڈی کا رُخ کریں، نئی تحریر کے لیے دباؤ میں اضافہ تو بہرحال ہو گا