داعش اب تحریکِ طالبان پاکستان سے بڑا خطرہ کیوں؟

داعش اب تحریکِ طالبان پاکستان سے بڑا خطرہ کیوں؟
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں امامیہ مسجد پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 65 افراد کی شہادت نے بظاہر ایک مرتبہ پھر سے سنگین خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس دھماکے نے ایک دہائی قبل ہونے والے ان بھیانک مناظر کی یاد تازہ کر دی ہے جب پشاور شہر میں روزانہ بم دھماکے ہوا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جمعہ والا دن ہم اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجا کرتے تھے کیونکہ اس دن کوئی نہ کوئی بدامنی کا واقعہ ضرور پیش آتا تھا۔ امامیہ مسجد پر ہونے والا حملہ بھی جمعہ ہی کے روز پیش آیا۔ ان دنوں کو آج بھی یاد کرتے ہیں تو پاؤں ڈگمگانے اور حوصلہ جواب دینے لگتا ہے۔

اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ یا داعش کی طرف سے قبول کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ افغانستان میں داعش کے وجود کے بعد سے سرحد کے اس پار خیبر پختونحوا میں اس تنظیم کی یہ سب سے بڑی کارروائی سمجھی جا رہی ہے۔

2015 میں پہلی مرتبہ افغانستان میں دولت اسلامیہ خراسان کا وجود عمل میں لایا گیا۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ تنظیم کا ابتدائی ڈھانچہ پاکستان کے اورکزئی ایجنسی کی وادی تیراہ میں تیار کیا گیا تھا۔ تاہم، داعش خراسان کی باقاعدہ تنظیم کا اعلان افغان سرزمین سے کیا گیا۔

اس وقت اس تنظیم کے قیام میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے منحرف ہونے والے کمانڈروں نے اہم کردار ادا کیا۔ 2013 میں جب ٹی ٹی پی میں امارت کے معاملے پر اختلافات کھل کر سامنے آئے تو تنظیم سے کئی اہم گروپ جدا ہو گئے جن میں اورکزئی، مہمند، خیبر، کرم اور باجوڑ کی شاخیں قابل ذکر ہیں۔ حافظ سعید خان اورکزئی، جو اس وقت ٹی ٹی پی اورکزئی شاخ کے سربراہ تھے، نے مرکزی تنظیم سے علحیدگی اختیار کرتے ہوئے دیگر اہم ٹی ٹی پی کمانڈروں کی معاونت سے افغانستان میں داعش خراسان کی بنیاد رکھی اور وہ اس کے پہلے امیر بھی مقرر کیے گئے۔ ٹی ٹی پی اورکزئی کی پوری شاخ اور باجوڑ کے آدھے طالبان جنگجو اور کمانڈر داعش خراسان کا حصہ بن گئے۔

اس وقت پاکستان میں داعش کے حوالے سے حکومتی سطح پر صفر برداشت کی پالیسی پائی جاتی تھی بلکہ یہاں تک کہ حکمران اس پر بات کرنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے جب کوئی پاکستان میں داعش کے وجود کے بارے پوچھتا تو وہ سختی سے تردید کر دیا کرتے تھے۔ پھر کچھ ہی عرصے کے بعد پشاور کے نزدیک واقع افغان مہاجر کمیمپوں میں پہلی مرتبہ داعش خراسان کی طرف سے اپنا پروپیگنڈا مواد تقسیم کیا گیا جہاں سے سرحد کے اس پار تنظیم کی سرگرمیوں کا اشارہ بھی ملا۔ لیکن حکام پھر بھی داعش کے وجود سے انکاری تھے۔

دوسری طرف سرحد پار افغانستان میں داعش کی سرگرمیاں تیزی سے جاری تھیں اور ابتدا میں دو سرحدی صوبوں کنہڑ اور ننگرہار کے ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی جہاں افغان طالبان کا اثر و رسوخ زیادہ تھا۔ اس دوران کئی مہینوں تک دونوں تنظیموں کے مابین وقتاً فوقتاً شدید جھڑپیں ہوتی رہیں جن میں دونوں جانب سے سینکڑوں جنگجو مارے گئے۔ ابتدا میں افغان طالبان ان کے سامنے تھوڑے سے پسپا ہوتے بھی نظر آئے لیکن بعد میں امارت اسلامی نے انہیں چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کیں جس سے ان کی کمر ٹوٹ گئی۔

پاکستان میں قریب دو سال پہلے داعش کی کارروائیوں میں اچانک سے تیزی آئی اور میں نے اس وقت بھی اس پر ایک مفصل کالم لکھا تھا اور ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور پختونخوا میں ہونے والے ان تمام واقعات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا تھا لیکن حکومتی سطح پر اس وقت بھی اس تنظیم کے ضمن میں زیادہ سنجیدگی نظر نہیں آتی تھی۔

لیکن اب اچانک سے پاکستان بھر میں حکام کی طرف سے داعش کے خطرے سے بار بار خبردار کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سال دسمبر میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے پہلی مرتبہ او آئی سی کانفرنس کے موقع پر داعش کے ممکنہ خطرے کے بارے میں بات کی گئی اور یہاں تک کہا گیا کہ داعش کے جنگجو افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو کر حملے کر رہے ہیں۔ اس بیان کے چند ہفتے بعد خیبر پختونخوا پولیس کے سربراہ معظم جاہ انصاری کی طرف سے ایک انگریزی اخبار کو مفصل انٹرویو دیا گیا جس میں پہلی مرتبہ یہ اعلان کیا گیا کہ داعش ٹی ٹی پی سے بڑا خطرہ ہے۔ تاہم، آئی جی کی جانب سے اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی گئی کہ دولت اسلامیہ ٹی ٹی پی سے آخر کس بنیاد پر بڑا خطرہ ہو سکتا ہے؟

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی حکومت کے آخری سالوں میں داعش کا اثر و رسوخ کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔ اس وقت تک تنظیم کے صف اول کے سمجھنے جانے والے بیشتر اہم کمانڈر یا تو امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے یا پھر ہتھیار ڈال کر افغان حکومت کو تسلیم ہو گئے تھے۔ تنظیم کو اس سے بھی بڑا دھچکا اس وقت لگا جب اپریل 2020 میں داعش خراسان کے سربراہ اسلم فاروقی افغان سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں گرفتار ہوئے۔ اس گرفتاری کے بعد یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید وجود کو لاحق خطرے سے دوچار شدت پسند تنظیم افغانستان میں پھر کبھی کھڑی نہیں ہو پائے گی اور شاید امیر کی گرفتاری ان کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو۔

لیکن یہ تمام تجزیے اور تبصرے اس وقت غلط ثابت ہوئے جب 15 اگست کے بعد امارت اسلامی کی طرف سے کابل پر قبضے کے بعد داعش کی طرف سے نئے سرے سے کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا۔ سب سے بڑا اور شدید حملہ کابل ائرپورٹ پر کیا گیا جس میں لگ بھگ 150 افراد ہلاک اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ اس واقعہ میں 17 کے قریب امریکی فوجی بھی مارے گئے۔ کابل ائر پورٹ حملے نے جیسے داعش کی وجود میں ایک نئی روح پھونک دی اور تنظیم غیر متوقع طور پر پہلے سے زیادہ مضبوط شکل میں سامنے آئی۔

گذشتہ چھ مہینوں کے دوران جب سے طالبان افغانستان پر قابض ہوئے ہیں داعش کی کارروائیوں میں مسلسل تیزی آ رہی ہے۔ تنظیم نے قندہار اور قندوز میں اہل تشیع کی امام بارگاہوں اور سردار محمد داؤد خان اسپتال کو خودکش حملوں میں نشانہ بنایا جس میں مجموعی طورپر سینکڑوں افراد شہید ہوئے۔

ان واقعات کے بعد امارت اسلامی کی طرف سے افغانستان بھر میں داعش جنگجوؤں کے خلاف وسیع پیمانے پر کارروائیاں شروع کی گئیں جن میں ان کا وسیع نیٹ ورک توڑنے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس کے باجود سرحد پار دولت اسلامیہ کی کارروائیاں ناصرف بدستور جاری ہیں بلکہ ان جنگجوؤں کی تعداد اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2000 سے بڑھ کر 4000 ہو گئی ہے۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی تنظیم جسے امارت اسلامی سر اٹھانے کی مہلت نہیں دے رہی وہ سرحد کے دونوں جانب کیسے اتنے بڑے بڑے حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے؟ پاکستان اور افغانستان کو اس سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔

داعش پاکستان اور افغانستان میں واحد ایسی تنظیم ہے جس کی بنیاد اس خطے سے نہیں جڑی ہوئی بلکہ یہ  مشرق وسطیٰ سے آئی ہوئی تنظیم ہے جب کہ اس کو اس طرح کی مقامی اور قبائلی مدد و حمایت بھی حاصل نہیں جس طرح ٹی ٹی پی یا دیگر عسکری تنظیموں کو حاصل ہے لیکن پھر بھی ان کی دہشت روز بروز بڑھتی جار رہی ہے۔

لیکن اس سے بھی بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ یہ تنظیم پاک افغان مٹی پر جس تیزی سے اپنے پنجے گاڑ رہی ہے اسی رفتار سے دونوں پڑوسی ممالک میں متشرکہ مفادات کے حصول میں یکسوئی کا فقدان نظر آتا ہے جس سے آنے والا منظر نامہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتا۔

مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔