سینئر صحافی توصیف احمد خان نے کہا ہے کہ علیم خان کے پاس 40 اراکین ہونے کا دعویٰ غلط ہے، ان کے پاس صرف 3 ممبران موجود ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اطلاع حکومتی حلقوں کو بھی ہو چکی ہے۔
توصیف احمد کا کہنا تھا کہ علیم خان کی انٹری کی وجہ سے ترین گروپ کے اندر اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم خان کو ن لیگ کی تھپکی دی گئی ہے۔ جہانگیر ترین کی رہائشگاہ پر اہم اعلان سے قبل انہوں نے اپنے گروپ کے اجلاس کی صدارت کی تھی جس میں 10 اراکین اسمبلی نے شرکت کی اور دو صوبائی وزارا نے علیحدہ علیحدہ ملاقات کی جبکہ 10 میں سے 3 اراکین نے ن لیگ کی ٹکٹ پر ان کے ساتھ چلنے کی آمادگی ظاہر کی۔ 3 نے کسی بھی پیشکش کو مسترد کر دیا جبکہ 4 نے اپنی رائے کو محفوظ رکھا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ علیم خان کے جہانگیر ترین کیساتھ رابطے بحال ہوئے ہیں لیکن ان کا سب سے زیادہ رابطہ ن لیگ کیساتھ ہے۔ انھیں رابطوں کی وجہ سے وہ ترین گروپ کیساتھ ملاقات کیلئے پہنچے تھے۔وہاں جا کر ان کے اندر ایک خواہش پیدا ہو گئی کہ کیوں نہ میں اتنے بندے اکھٹے کر لوں تاکہ میں خود ہی وزارت اعلیٰ کا امیدوار بن جائوں لیکن آصف نکئی نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا، اس لئے علیم خان کوئی فیصلہ نہ کروا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب آصف نکئی اور دیگر لوگوں نے اکھٹے ہو کر اپنا ایک الگ گروپ بنا لیا ہے۔ علیم خان بڑے سٹیک ہولڈر کے منظور شدہ نہیں اور نہ ہی ن لیگ کے ہی وزیراعلیٰ ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ سب نے مل کر ق لیگ کی چھٹی کروا دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ علیم خان کے پاس 40 اراکین کا دعویٰ غلط، ان کے پاس صرف 3 ممبران موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اطلاع حکومتی حلقوں کو بھی ہو چکی ہے۔ اس لئے جمعرات کے روز وزیراعظم عمران خان ان ایم پی ایز کیساتھ بھی ملیں گے جن کیساتھ علیم خان نے رابطہ کیا تھا۔
توصیف احمد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دار گروپ کے مقابلے میں سیاسی گھرانے اکھٹے ہونے لگے جو اپنا وزیراعلیٰ بنانا چاہ رہے ہیں۔
پروگرام کے دوران شریک گفتگو نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات سے قبل ہی طے کر لیا تھا کہ ان سے کوئی شکوے یا شکایات کی جائیں گی اور نہ ہی کسی قسم کے مطالبات پیش کئے جائیں گے۔ اندرون خانہ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی گفتگو ایسی تھی جیسے وہ کوئی آخری تقریر کر رہے ہوں۔ انہوں نے ایم کیو ایم کی بڑی تعریفوں کے پل باندھے اور کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور واحد اتحادی ہیں جنہوں نے کبھی مجھے بلیک میل نہیں کیا۔
نادیہ نقی نے کہا کہ ایم کیو ایم علیم خان کی انٹری کے بعد بھی سمجھتی ہے کہ جادوئی نمبر ان کے پاس ہے۔ اب جتنا وہ اسے اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں تو کیوں نہیں۔ اصل چیز جمعرات کو اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ ہے۔ زرداری صاحب پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم کو اچھی طرح سے ہینڈل کرتے ہوئے انھیں جو چاہیے وہ دے سکتے ہیں۔ تاہم انھیں پیپلز پارٹی کی پیشکش پر کسی کی گارنٹی کی ضرورت ہے۔ میرا نہیں خیال کہ وہ اس کیلئے مولانا فضل الرحمان کی گارنٹی کو مانیں گے۔ اس لئے ان کی کل گارنٹی کیلئے ایک اہم ملاقات ہے۔
مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اگر علیم خان نے سیاست کرنی ہے تو ن لیگ سے بہتر ان کیلئے کوئی اور گھر نہیں ہے۔ چالیس لوگ ان کیساتھ ہیں یا نہیں، اتنی بڑی تعداد میں اراکین ن لیگ کیساتھ ضرور رابطے میں ہیں۔ یہ لوگ علیم خان کو دیدیے جائیں گے، جب انھیں ان کا سردار بنایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا علیم خان کے تو پہلے ہی جہانگیر ترین کیساتھ ملاقات طے ہو گئے تھے، ان کی لندن روانگی کا مقصد نواز شریف سے ملاقات ہو سکتا ہے کیونکہ اگر انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ لینی ہے تو اس کیلئے مسلیم لیگ ن کے قائد کی آشیرباد بہت ضروری ہے۔ ترین نے انھیں مشورہ دیا ہوگا کہ آپ نواز شریف کیساتھ بھی ملاقات کر لیں تاکہ جو ہم نے بات چیت طے کی ہے اس پر انھیں بھی آگاہ کیا جائے۔