تحریک انصاف والے روئیں چاہے چیخیں، نظام یہی چلے گا

یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ہمارے ہاں ہر بار کی یہی کہانی ہے۔ تڑپ اور الجھن بس وہ لوگ محسوس کر رہے ہیں جنہوں نے پہلی یا دوسری مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا ہے، اور ان کا سیاسی شعور بھی تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پیجز، مخصوص ٹوئٹر ہینڈلز اور صحافی نما چند یوٹیوبرز نے پروان چڑھایا ہے۔

تحریک انصاف والے روئیں چاہے چیخیں، نظام یہی چلے گا

وہ لوگ جن کا سیاسی شعور 2014 کے دھرنے یا بلکہ اس کے بھی بعد عمران خان کو بطور وزیر اعظم ایوان سے برخاست کروائے جانے کے بعد شروع ہوتا ہے ان سے میں قطعی مخاطب نہیں ہوں، میرے مخاطب وہ باشعور لوگ ہیں جو پاکستان میں گذشتہ 3 انتخابات نہیں بلکہ پاکستان کے تمام انتخابات کی رام کہانی جانتے ہیں اور یہ بھی مانتے ہیں کہ پاکستان میں کبھی بھی انتخابات شفاف اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ بعض تاریخ دان اور سیاست دان 1970 کے انتخابات کو منصفانہ مانتے ہیں حالانکہ یہ سب سے بڑی حماقت ہے کیونکہ 1970 کے انتخابات جیسے کنٹرولڈ اور مینیجڈ انتخابات ان سے قبل ہوئے اور نا ہی ان کے بعد آج تک کبھی ہوئے ہیں۔

1970 کے انتخابات اس حد تک غیر منصفانہ تھے کہ ان کا نتیجہ ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں نکلا۔ عالم یہ تھا کہ سابقہ مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے علاقے میں عوامی لیگ نے انتخاب ایسے مینیج کیا کہ پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی جماعت کو کوئی سیٹ نہ مل سکی۔ اس کی بنیادی وجہ بنگال کی بیوروکریسی اور بنگالی فوج سمیت دیگر شعبوں میں موجود بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف بغاوت کا رحجان تھا۔ ان سب نے مل کر اس بغاوت کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ دوسری جانب سابق مغربی پاکستان اور موجودہ پاکستان کے علاقے میں جنرل یحییٰ خان نے پیپلز پارٹی کیلئے گراؤنڈ پوری طرح تیار کیا اور عوامی لیگ کا یہاں سے صفایا کروا دیا گیا۔

جن لوگوں کو ماضی کے بارے میں معلوم ہے وہ جانتے ہیں کہ 2013 اور 2018 کے الیکشن کس طرح مینیج کیے گئے تھے۔ میں گذشتہ دونوں انتخابات کا عینی شاہد ہوں اور گراؤنڈ پر پولنگ سٹیشنز میں جا کر میڈیا کوریج کر چکا ہوں۔ رواں سال کے انتخابات میں بھی 8 فروری کو میڈیا ہاؤسز کو کہاں سے کس کے لیے فون آتے رہے، میں وہ بھی جانتا ہوں۔ ایسے ایسے اشخاص جن کی ساری زندگی کی سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلائی جاتی ہے، ان کے لیے بھی گراؤنڈ تیار کی گئی۔ مجھے اس کارروائی پر کوئی حیرانگی نہیں ہو رہی کیونکہ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، ہمارے ہاں ہر بار کی یہی کہانی ہے۔ تڑپ اور الجھن بس وہ لوگ محسوس کر رہے ہیں جنہوں نے پہلی یا دوسری مرتبہ ووٹ کاسٹ کیا ہے، اور ان کا سیاسی شعور بھی تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پیجز، مخصوص ٹوئٹر ہینڈلز اور صحافی نما چند یوٹیوبرز نے پروان چڑھایا ہے۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

میری دانست میں اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام چل جائے گا؟ اشاروں اشاروں میں چند خبریں اور تجزیے پیش کر دیتا ہوں، سمجھنے والوں کی اپنی بصیرت اگر وہ پہنچ سکیں۔

 شروع کرتے ہیں مریم نواز صاحبہ سے جنہیں پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ مریم نواز کے بارے میں 2017 کے بعد سے یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ نواز شریف کے ہٹائے جانے پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ رویہ رکھتی ہیں۔ ان تمام سالوں کے دوران وہ اپنے چبھتے الفاظ میں ان جذبات کا اظہار بھی کرتی رہی ہیں، مگر تازہ خبر یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی بہتر ہو چکے ہیں اور اس وقت انہیں طاقتور حلقوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ یہاں تک کہ کئی بااثر لوگوں کو یہ یقین دہائی بھی کروائی جا چکی ہے کہ آپ بے فکر رہیں، مریم پنجاب میں پرفارم کر پائے گی یا نہیں، اس سے متعلق آپ کے جو خدشات ہیں وہ غلط ہیں۔ مریم آپ کی مثبت امیدوں پر پوری اترے گی لہٰذا اس کو سپورٹ کریں۔

دوسری جانب مریم کو بھی اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے کہ آپ کو انتقامی رویہ ترک کرنا ہو گا اور مریم نے بھی حامی بھر لی ہے۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہے اور عمران خان کو جیل سے نکالنے کے لیے کون کون کوششیں کر رہا ہے؟ چند روز قبل مجھ پر حیران کن انکشاف ہوا جہاں پی ٹی آئی کے ایک بانی رکن جو اس وقت بھی پارٹی کا اہم حصہ ہیں، انہوں نے بتایا کہ شیر افضل مروت جن سے مخالفین اکثر بیزار نظر آتے ہیں اور تحریک انصاف کے کارکن ان کو عمران خان کا جانشین تک کہتے ہیں، انہیں ایک سپیشل ٹاسک کے تحت پارٹی میں شامل کروایا گیا ہے۔ مقتدرہ کے ساتھ شیر افضل مروت کے بہترین تعلقات ہیں اور عمران خان کی رہائی کیلئے وہ عمران خان اور مقتدرہ کے مابین پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے خلاف کھل کر بیان بازی کرنے کے باوجود ان کے خلاف کبھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ہر مرتبہ جب وہ عمران خان سے ملاقات کر کے آتے ہیں تو کوئی نیا شگوفہ چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی جماعت نہ چاہتے بھی اس پر خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ حیدر مہدی اور عادل راجہ جیسے پی ٹی آئی کے سپورٹرز اور ریاست مخالف کرداروں سے تحریک انصاف کی لاتعلقی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین جاری یہ ڈیل کب اور کیسے کامیاب ہو گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف کے کارکنان کے لیے بس ایک ہی پیغام ہے کہ آپ چاہے جتنا مرضی روئیں، چیخیں اور تڑپیں، نظام یہی چلے گا۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@