کیا لاہور کا سیاسی شو مسلم لیگ نواز کی قسمت کا ستارہ دوبارہ چمکا پائے گا؟

کیا لاہور کا سیاسی شو مسلم لیگ نواز کی قسمت کا ستارہ دوبارہ چمکا پائے گا؟
پچھلے کچھ عرصے سے کہا جا رہا تھا کہ شریف خاندان کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔ بہت سے مبصرین اور نقادوں نے وہی پرانا راگ الاپنا جاری رکھا ہوا تھا کہ مسلم لیگ نواز تتر بتر ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ نواز نے خود بھی شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کو اپنا کر بہت سا قیمتی وقت کھویا اور نواز شریف اور مریم نواز کی چپ کے باعث اس دوران پیپلز پارٹی کو مقتدر قوتوں کی آشیرباد سے ’اصل اپوزیشن‘ بنانے کا کام شروع ہو گیا۔ لیکن نواز شریف نے ضمانت کا وقت ختم ہونے سے پہلے جس انداز سے اپنی جماعت میں تبدیلیاں لاتے ہوئے تمام اسٹیبلشمنٹ مخالف رہنماؤں کو مرکزی ذمہ داریاں سونپیں اور پھر مریم نواز کی دو دن کی کال پر جس قدر بڑی تعداد میں مسلم لیگ نواز کے کارکن نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل تک چھوڑنے کے لئے جمع ہوئے اس کے بعد سے نہ صرف تمام قصیدہ خواں شترمرغ کی مانند منہ ریت میں منہ چھپا کر بیٹھے ہیں بلکہ اس کامیاب پاور شو نے خود مسلم لیگ نواز کی مردہ سیاست میں ایک نئی روح پھونکنے کا کام انجام دیا ہے۔

رمضان اور گرمی کے باوجود بڑی تعداد میں عوام کا باہر آنا مسلم لیگ نواز کی بڑی کامیابی ہے

رمضان کی آمد اور گرمی کے باعث خود مسلم لیگ نواز کے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کو جیل تک الوداع کرنے کیلئے بہت بڑا مجمع شاید اکٹھا نہ ہو سکے۔ لیکن مریم نواز نے اس ناممکن کام کو بھی ممکن بنا ڈالا اور ہمیشہ کی مانند وہ مسلم لیگ نواز کے ووٹ بنک کو گھر سے باہر نکالنے میں کامیاب رہیں۔ یاد رہے کہ مریم نواز سے پہلے مسلم لیگ نواز کبھی بھی پرجوش کارکنوں یا مزاحمتی سیاست کے لئے جانی پہچانی نہیں جاتی تھی۔ یہ مریم کی محنت اور اس کا سیاسی کرشمہ ہے کہ اس نے مسلم لیگ نواز کے ساتھ شہری اور دیہاتی علاقوں کے پڑھے لکھے مڈل کلاس نوجوانوں کا ناطہ جوڑ دیا ہے اور اب مسلم لیگ نواز کے جلسوں اور ریلیوں میں جوش اور ولولہ صاف دکھائی دیتا ہے۔

https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1126143526838972417

میڈیا بلیک آؤٹ نواز شریف کے حق میں گیا

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مسلم لیگ نواز کے منگل کے روز ہونے والے پاور شو کا میڈیا بلیک آؤٹ کروانا بھی مسلم لیگ نواز کے لئے سود مند رہا اور مسلم لیگ نواز ملکی اور بیرونی سطح پر یہ باور کروانے میں کامیاب ہو گئی کہ ملک میں اس وقت ایک ان دیکھا مارشل لا نافذ ہے جہاں صحافت اور آزادی اظہار رائے دونوں ہی بے چہرہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت لاہور جیسے مرکزی شہر میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتی ہے اور ملکی ٹیلی وژن چینل اس کے اس سیاسی قوت کے مظاہرے کو نظر انداز کر دیتے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے 126 دنوں کے دھرنے کو جس میں چند ہزار افراد بھی شامل نہیں ہوتے تھے دن رات ٹیلی وژن سکرینوں کے ذریعے براہ راست نشر کیا جاتا تھا۔ مسلم لیگ نواز کے اس پاور شو کے میڈیا بلیک آؤٹ سے ایک بات تو عیاں ہو گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مقتدر قوتیں اس جماعت کو پنجاب کی عوامی لیگ بنانے پر مصر ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے قبل عوامی لیگ کے جلسے جلوس بھی مرکزی اخبارات کی شہ سرخیوں سے غائب رہتے تھے اور قصیدہ خواں صحافی حضرات اخبارات میں سب اچھا ہے کی گردان الاپتے دکھائی دیتے تھے۔ شاید مقتدر قوتیں یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا نہیں سکتی اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی ہے۔

یہ ماضی کا نواز شریف نہیں رہا

نواز شریف پر چاہے ضیا کی آشیر باد حاصل کرنے کا الزام لگائیں یا نوے کی دہائی میں اس کا مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کا ماضی دانستاً ان نومولود بچوں کو  جو سیاسی فہم سے عاری ہیں دکھلایا جائے، حقیقت یہ ہے کہ 1999 کے بعد والا نواز شریف اور بالخصوص 2013 کے بعد والا نواز شریف اب اس ملک میں جمہوری بالادستی کے بیانیے کا علمبردار بن چکا ہے اور مریم نواز کی صورت میں ایسا سیاسی جانشین تیار کر چکا ہے جو تحریک انصاف اور مقتدر قوتوں دونوں کو ہی تگنی کا ناچ نچانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کو مسلم لیگ نواز کی نائب صدارت ملنے کے بعد فوراً تحریک انصاف عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچ چکی ہے کہ مریم نواز کو بھی سیاسی اکھاڑے سے باہر نکال پھینکا جائے تاکہ محترم عمران خان اور ہمنوا تن تنہا اکھاڑے میں خود ہی اپنی جیت کے شادیانے بجانے میں مگن رہیں۔

https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1126065949117960192

کیا تحریک انصاف کے بعد پیپلز پارٹی درست آپشن ثابت ہوگا؟

البتہ اب صورتحال مختلف ہے کہ مقتدر قوتوں کو ادراک ہو چلا ہے کہ تحریک انصاف نے ان کا بنایا ہوا سارا مصنوعی سیاسی عمل تباہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ ایسے میں دوسرا آپشن آصف زرداری سے مفاہمت کا بنتا ہے لیکن قباحت یہ ہے کہ زرداری کی پیپلز پارٹی کا پنجاب اور پختونخوا سے صفایا ہو چکا ہے اور ان دونوں صوبوں کے بدلتے ہوئے سیاسی مزاج کے باعث مقتدر قوتوں کا پیپلز پارٹی پر تکیہ کرنے کا تجربہ بھی کم و بیش وہی نتائج دے گا جو کہ تحریک انصاف نے دیا۔ مقتدر قوتوں کے پاس آپشن دو ہی بچتے ہیں کہ یا تو مسلم لیگ نواز سے کوئی مفاہمت کر لی جائے یا پھر 1971 جیسے سانحے کی جانب خدانخواستہ سفر جاری رکھا جائے۔

پراپیگنڈا منتخب نمائندوں کو عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکتا

نواز شریف کے منگل کے روز منعقد کردہ کامیاب سیاسی شو نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ منتخب نمائندوں کو کسی بھی قسم کا پراپیگینڈا، انجینئرڈ سیاسی عمل یا متنازعہ عدالتی فیصلے عوام کے دلوں سے باہر نہیں نکال سکتے۔ نواز شریف کے ساتھ نہ صرف اس کا ووٹ بنک آج بھی کھڑا ہے بلکہ پنجاب سے ہمدردی کی لہر آج بھی اس کے اور مریم نواز کے ساتھ ہے۔ ایسی صورتحال میں جب مقتدر قوتوں کو ہر دم آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑ رہے ہوں، رضا باقر جیسے امپورٹڈ آدمیوں کو با امرِ مجوری گورنر سٹیٹ بنک تعینات کرنا پڑ رہا ہو اور مہنگائی کے ہاتھوں چیخیں مارتی عوام کے غم و غصے کا بھی سامنا کرنا ہو تو نواز شریف یا مسلم لیگ نواز کبھی بھی  مقتدر قوتوں سے کسی بھی قسم کی مفاہمت نہیں چاہیں گے۔ کیونکہ اس وقت مہرہ سیاسی بساط پر بری طرح سے پٹ چکا ہے۔

https://twitter.com/SHABAZGIL/status/1125820456274149376

مریم اس تحریک کو مہمیز دے سکتی ہے

رمضان کے بعد اگر مریم نواز نے عوامی رابطہ مہم شروع کر دی اور چند جلسے اور ریلیاں پنجاب اور ہزارہ بیلٹ میں منعقد کر ڈالیں تو مسلم لیگ نواز باآسانی عوامی احتجاجی تحریک چلانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز کیا اس بساط کو منطقی انجام کی جانب لے کر جائیں گی اور کسی مفاہمت کے بغیر مقتدر قوتوں کو پسپائی پر مجبور کریں گی یا نہیں؟

لاہور کے کامیاب سیاسی شو نے نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے پر مہر ثبت کر دی ہے اور خود مسلم لیگ نواز کو بھی اس امر کا ادراک ہو گیا ہو گا کہ عوام پر بھروسہ کر کے جمہوریت کی بالادستی کی جنگ میں اپنا پلڑا بھاری کرنا کسی مفاہمتی بیانیے کی نسبت انتہائی کامیاب اور پر امید سفر ہے۔

نواز شریف کے کامیاب سیاسی شو اور گرفتاری دینے کے بعد یہ سوال پھر سے کھڑا ہو گیا ہے کہ آخر ہر دور میں سیاسی اور منتخب قیادت ہی کیوں کبھی غدار اور کبھی بے ایمان ثابت کروا کر پابند سلاسل کی جاتی ہے اور آئین کو قدموں تلے روندنے والے اور ملک کو دولخت کرنے والے آمر کیوں ہمیشہ ہی ایماندار اور محب وطن ٹھہرتے ہیں؟

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔