صوبہ پنجاب میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس اضافے نے صحت کی سہولیات خصوصاً ہسپتالوں پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے۔ اس وقت صوبے کے ہسپتالوں کے میں کرونا مریضوں کے زیر استعمال بیڈز کی شرح 54 فیصد تک ہو چکی ہے۔
ڈان اخبار کی خبر کے مطابق گزشتہ دو ہفتے اور اس سے زائد کے دوران وائرس کی تیزی سے منتقلی کے باعث اس شرح میں اچانک یہ اضافہ دیکھا گیا۔ یہ اضافہ کس تشویشناک حد تک تیز ہو چکا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 15 مارچ کو پنجاب میں پہلے کرونا کیس کے سامنے آنے کے بعد سے ایک ماہ میں 3 ہزار 686 مثبت مریض رپورٹ ہوئے تھے۔ جبکہ گزشتہ 7 روز میں صوبے میں 3 ہزار 693 افراد وائرس سے متاثر ہوئے۔
صوبے کے زیادہ تر کرونا مریض لاہور کے ہسپتالوں میں داخل ہیں۔ جہاں ایکسپو سینٹر میں قائم کئے جانے والے 1000 بستروں کے فیلڈ ہسپتال میں 450 مریض 45 فیصد بستروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ میں 100 مریض، 100 فیصد بستروں کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ میو ہسپتال میں 420 مریض 70 فیصد بستروں کا استعمال کر رہے ہیں۔
محکمہ صحت حکام کا ماننا ہے کہ اگر اسی شرح سے کیسز میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ بستروں کے استعمال کی شرح آئندہ 2 ہفتوں میں 80 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔
ادھر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے کرونا وائرس کے مریضوں اور اموات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پی ایم اے کے سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ پریشان کن سوال یہ ہے کہ ہمارے ہسپتال کرونا مریضوں کا لوڈ مستقبل میں کیسے برداشت کریں گے کہ وائرس کی منتقلی کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے خامیوں کو دور کرنے اور کرونا مریضوں کے لیے مزید جگہ بنانے کے لیے موجود نظام صحت پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
جبکہ گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر سلمان حسیب چوہدری نے صورتحال کو تباہ کن قرار دیا ہے۔انکا کہنا تھا کہ عین وبا کے جوبن پر حکومت کا لاک ڈاؤن کھولنا سمجھ سے باہر ہے۔انکا کہنا تھا کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ 10 دنوں میں ہماری کرونا فیسیلیٹیز چوک ہوجائیں گی۔