پنجاب حکومت کی جانب سے کرونا سے ہونے والی 20 سے زائد اموات چھپانے کا انکشاف

پنجاب حکومت کی جانب سے کرونا سے ہونے والی 20 سے زائد اموات چھپانے کا انکشاف
کرونا وائرس نے جب سے ملک میں ڈیرے ڈالے ہیں اس سے نمٹنے کے لئے حکومتوں کی کارکردگی پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے تو کرونا کے کیسز کو جان بوجھ کر چھپانے کا الزام بھی لگتا رہا۔ تاہم اب پنجاب حکومت کی مجرمانہ غفلت کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ نیا دور کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے وبا کے ابتدائی دنوں میں کرونا سے ہونے والی 20 سے زائد اموات کو جان بوجھ کر چھپایا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس حوالے سے اعلیٰ سطحی اجلاس میں باقاعدہ فیصلہ کیا گیا۔ پنجاب حکومت اور بیوروکریسی سے کرونا کے حوالے سے فیصلہ سازی میں شامل چند چیدہ چیدہ افراد اس غیر رسمی اجلاس میں شامل تھے۔

ذرائع کے مطابق یہ اموات اس لئے چھپائی گئیں تاکہ کرونا کے حوالے سے لاک ڈاؤن مخالف بیانیہ تشکیل دینے کے لئے وفاق کو جو مدد درکار تھی وہ فراہم ہو سکے۔ میو اسپتال کے سینیئر ڈاکٹر جو اس معاملے سے آگاہ ہیں انہوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ یہ اموات پنجاب میں کرونا وائرس پہنچنے کے بعد 20 مارچ  سے  اپریل کے اوائل تک ہوئیں۔ یہ اموات پنجاب کے مختلف اسپتالوں میں ہوئیں تاہم ان اموات کی بڑی تعداد میو ہسپتال میں واقع ہوئی۔ ڈیوٹی ڈاکٹرز نے ان مریضوں کے ٹیسٹ بھیجنے کی کوشش کی تو اس عمل میں مشکلات ڈال کر ان کو روکا گیا اور حکام کی جانب سے ہدایت دی گئی کہ انہیں ان مریضوں میں شمار کر کے مردہ قرار دیا جائے جن کو شوگر، کینسر یا ہیپاٹئٹس جیسا پہلے سے کوئی عارضہ لاحق تھا۔

ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کو مر جانے والے جن چند مریضوں کے ٹیسٹ رپورٹ کروانے میں کامیابی مل سکی بعد میں ان کے ٹیسٹ پازیٹو آئے لیکن اس معاملے کو دبا دیا گیا۔ خاص طور پر ایسا نشتر اسپتال ملتان میں ہوا جس کے حوالے سے اکثر ڈاکٹرز نے اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا تھا۔

ذرائع نے نشاندہی کی یہ وہ دن تھے جب وزیر صحت یاسمین راشد نے ایک پریس کانفرنس میں میو اسپتال میں داخل ایک مریض کی کرونا وائرس سے موت کی تصدیق کی تھی مگر کچھ ہی دیر میں اسے واپس لیتے ہوئے اس کی موت کی دیگر وجوہات ظاہر کر دی گئی تھیں۔\



میو اسپتال میں موجود ذرائع نے بتایا کہ آج بھی وہ روز کرونا کے 8 سے 10 ایسے مشتبہ مریض وصول کر رہے ہیں جو کہ سانس پھولنے کی شکایت سے آتے ہیں اور کچھ دیر میں ان کا انتقال ہو جاتا ہے جب کہ ان کا کرونا ٹیسٹ کرائے بغیر ان کی موت کی وجہ کرونا کے علاوہ کچھ اور ظاہر کر دی جاتی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس سے متعلق حکومتی ڈیٹا مشکوک ہے۔ پنجاب میں میڈیا کا سارا فوکس لاہور کے اسپتالوں پر ہے۔ جب کہ ملتان، سرگودھا، راولپنڈی، ڈی جی خان ڈویژنز میں تو صورتحال خوفناک ہے جب کہ حکومت اسے چھپانے میں مصروف ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روز ڈاکٹرز کے درجنوں میسجز ملتے ہیں جس میں زمینی حقائق بتا کر ڈاکٹر تنظیموں سے مدد طلب کی جاتی ہے لیکن کچھ نہیں ہو رہا۔

گرینڈ ہیلتھ الائنس سے وابستہ جنرل اسپتال کے ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور کے علاوہ پنجاب کے دیگر شہروں میں حالات بہت خراب ہیں، کوئی میڈیا نمائندہ راولپنڈی میں جا کر تحقیقات کر لے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے کرونا کی اموات پر سب سے بڑا کور اپ وہاں کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک تکنیکی کور اپ ہے۔ سانس پھولنے کی شکایت کے ساتھ آنے اور جلد انتقال کرنے والوں کو ٹیسٹ کے بغیر ہی کسی اور وجہ سے مردہ قرار دیا جا رہا ہے تاکہ بعد میں کچھ ثابت ہی نہ ہو سکے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کا ڈیٹا مکمل طور پر مشکوک ہے۔ حکومت جس کو ٹیسٹ کی استعداد بتا رہی ہے وہ دراصل سیمپلنگ ہے۔ سیمپل اکھٹے کر کے رکھے جا رہے ہیں جب کہ ٹیسٹ کی استعداد بالکل نہیں بڑھائی گئی۔ جس کی وجہ سے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج آنے میں 14، 14 دن بھی لگ رہے ہیں جو کہ اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔

دوسری جانب محکمہ صحت کے ذرائع نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ اکثر مریضوں کو رپورٹس کی ہارڈ کاپی مہیا نہیں کی جا رہی۔ انہیں فون پر ٹیسٹ میں کرونا کی تصدیق کا بتایا جاتا ہے۔ جس کے بعد مریض اور اس کے خاندان کو قابو کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران کئی ایسے کیسز رہے ہیں کہ جن کو سرکاری طور پر کرونا پازیٹو قرار دیا گیا تاہم قرنطینہ میں پہنچانے کے بعد پرائیویٹ لیبز کے ٹیسٹ میں ان میں کرونا کی تصدیق نہ ہو سکی۔ اس حوالے سے مشہور کیس سٹی 42 لاہور کے سینیئر صحافی کا ہے جنہیں قرنطینہ میں 3 روز رکھنے کے بعد دوسری ٹیسٹ رپورٹ آنے پر انکشاف ہوا تھا کہ ان میں تو وائرس تھا ہی نہیں۔ ان کے بقول جب انہوں نے صورتحال پر سیکرٹری ہیلتھ کیپٹن ریٹائرڈ عثمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم یہ کیسے ہو گیا۔



مجموعی طور پر ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کا ڈیٹا WHO کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتا اور کسی بھی تھرڈ پارٹی آڈٹ میں اپنی حقانیت اور درست ہونے کے امر کو ثابت نہیں کر پائے گا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں پنجاب حکومت اضافی اموات بتا کر ان چھپائی گئی اموات کو ریکارڈ میں پورا کرنے کی کوشش کرے گی جس سے عوام پنجاب میں اموات کا گراف شرح سے ہٹ کر اوپر جاتا دیکھیں گے۔

نیا دور نے سنگین معاملے پر وزیر صحت یاسمین راشد اور ان کے ترجمان سے رابطہ کیا اور انہیں متعدد مسیجز پر بھی رابطے کا مقصد بتایا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یاد رہے کہ اس وقت صوبہ پنجاب میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 194 جب کہ کیسز کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔