مارگلہ نیشنل پارک کی اراضی ملٹری ڈائریکٹوریٹ کو دینا غیر قانونی ہے، ہائیکورٹ

مارگلہ نیشنل پارک کی اراضی ملٹری ڈائریکٹوریٹ کو دینا غیر قانونی ہے، ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مارگلہ نیشنل پارک کی 8 ہزار ایکڑ اراضی ملٹری ڈائریکٹوریٹ کو دینے کے نوٹیفکیشن پر نظرثانی کا حکم دے دیا اور ریمارکس دئیے کہ بادی النظر میں اراضی ملٹری ڈائریکٹوریٹ کو دینا غیرقانونی ہے۔

منگل کومارگلہ نیشنل پارک پرغیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیسز کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے حکومت ماحولیاتی تبدیلی کا چرچا بہت کر رہی ہے لیکن نیشنل پارک بے یارو مدد گار ہے۔ یہاں کوئی رول آف لاء نہیں ہے اور وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ ٹرائل فور فائیو اورسکستھ تک مرکوز ہے۔

مارگلہ نیشنل پارک پر غیر قانونی تعمیرات سے متعلق کیسز پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے مارگلہ نیشنل پارک پر قبضہ کیا ہوا کیوں نہ عدالت ان کے نام پبلک کرنے کے لئے ہدایات جاری کریں۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو 2016 کے لینڈ ملٹری ڈائریکٹوریٹ کو دینے کے نوٹیفیکیشن پر نظر ثانی کا حکم دیتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ہدایت جاری کردی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت وفاقی حکومت کو کہتی ہے کہ مستقبل کی جنریشن کو بچائیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پروفیسر زیڈ بی مرزا نے کتابیں لکھیں ہیں لیکن ایسے لوگوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے ملٹری لینڈ کو کس طرح اٹھ ہزار ایکٹر الاٹ کردی؟ عدالت نے مزید کہا کہ مارگلہ نیشنل پارک میں جو کچھ بچ گیا وفاقی حکومت اس کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ مسئلہ پرائیویٹ نیچر کا نہیں بالکل یہ بہت بڑا ایشو ہے اور میں اس سے متعلق اپنا مشورہ وفاقی حکومت کو دوں گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وفاقی حکومت سروے کرائے اور نیشنل پارک میں ہر قسم کی تعمیرات روکے، چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیوں نا عدالت یہ ہدایت جاری کرے کہ جس جس نے مارگلہ نیشنل پارک پر قبضہ کیا ان کے نام پبلک کیے جائیں۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نا ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی نا وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ اپنا کام کر رہا ہے اور سی ڈی اے نے لوگوں کو سوائے پلاٹ دینے کے کچھ نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ انوائرمنٹل ایجنسی مکمل بے یارو مدد گار ہے۔ سی ڈی اے صرف طاقت وروں کوسہولت دیتی آئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ8 ہزار ایکڑ ان کو دے دیا جن کو قانونی نہیں دے سکتے۔آرٹیکل 173 اور ملٹری لینڈ کے تحت صرف وفاقی حکومت جگہ لے سکتی ہے۔


چیف جسٹس نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا کی سائیڈ پر اسلام آباد کے بارڈر پر نیشنل پارک میں تباہی جاری ہے اور کوئی غریب کوئی کمزور نہیں بلکہ سارے طاقت ور یہ قبضے کر رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ آرٹیکل 173 اور ملٹری لینڈ کے تحت صرف وفاقی حکومت جگہ لے سکتی ہے اور منال ریسٹورنٹ کی تعمیر کس کی خواہش پر کی تھی یہ بھی ایک تاریخ ہے۔

عدالت نے منال ریسٹورنٹ کی پٹیشن واپس لینے کی درخواست مسترد کردی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ منال کی کنسٹریکشن کسی کی خواہش پر کی گئی تھی یہ بھی ایک ہسٹری ہے۔ ہائیکورٹ نے معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجتے ہوئے سماعت 8 دسمبر تک ملتوی کردی

چیف جسٹس نے سی ڈی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی ڈی اے صرف طاقتوروں کو سہولت دیتی آئی ہے اور جہاں میں بیٹھا ہوں آپ بیٹھیں تو مان جائیں کہ کتنی لاقانونینت ہے۔ عدالت نے معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجتے ہوئے سماعت آٹھ دسمبر تک ملتوی کردیا۔


پارک میں تباہی جاری ہے،کوئی غریب یا کمزور نہیں ، طاقت ور قبضے کر رہے ہیں اور پارک میں جو کچھ بچ گیا اس کا حکومت سروے کرائے اور ہر قسم کی تعمیرات روکے۔