سرفراز احمد نے آخری میچ میں کھیلنے سے انکار کیا تھا، اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا

سرفراز احمد نے آخری میچ میں کھیلنے سے انکار کیا تھا، اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا
پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالیہ دورہ انگلینڈ کے دوران سابق کپتان سرفراز احمد نے محض ایک میچ کھیلا لیکن وہ مسلسل نہ صرف خبروں میں رہے بلکہ ایک تنازع کا بھی حصہ بن گئے جب کہ اس تنازع کا ان کو اس وقت تو شاید علم بھی نہ ہوا ہو۔ اس کے لئے تو پاکستان کے سابق فاسٹ باؤلر سکندر بخت کو اعزاز جاتا ہے کہ انہوں نے سرفراز کو نہ صرف مسلسل موضوعِ بحث بنائے رکھا بلکہ جب ان کو عالیہ رشید نے یاد دلایا کہ وہ ایک ایسے کھلاڑی پر بار بار پروگرامز کر رہے ہیں جو ٹیم میں ہی نہیں جب کہ ان کی جگہ ٹیم میں کھیلنے والا کھلاڑی یعنی محمد رضوان بہترین پرفارمنس دے رہا ہے تو وہ مزید بھڑک اٹھے اور پھر یہ تنازع جیو سوپر سے اٹھ کر ملک بھر میں موضوعِ بحث بن گیا۔

لیکن اب سرفراز سے متعلق ایک نئی خبر گردش کر رہی ہے۔ یہ خبر دینے والے بھی کوئی اور نہیں بلکہ سینیئر سپورٹس رپورٹر عبدالماجد بھٹی ہیں جنہوں نے سیریز کے دوران سرفراز احمد کے بطور بارہواں کھلاڑی گراؤنڈ میں پانی لے جا کر کھلاڑیوں کو پلانے پر پاکستان کرکٹ بورڈ پر سابق کپتان کو نیچا دکھانے کا الزام عائد کر دیا تھا۔ اس پر تو جو بھٹی صاحب کے ساتھ سوشل میڈیا پر ہوا، سو ہوا لیکن اب انہوں نے ایک تازہ ترین انکشاف یہ کیا ہے کہ سرفراز احمد نے سیریز کے آخری ٹی 20 میچ میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ صرف کپتان بابر اعظم، ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بیٹنگ کوچ یونس خان کے سمجھانے پر ہی اس میچ میں کھیلنے پر آمادہ ہوئے تھے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ سرفراز نے میچ کے بعد ایک عجیب و غریب ٹوئیٹ کی تھی جس کا سوشل میڈیا اور قومی میڈیا میں خوب چرچا ہوا تھا۔ ان کے ٹوئیٹ کے الفاظ تھے: اتنا چھبنے لگا ہوں سب کو چھرا تو نہیں جانی جتنا بتاتے وہ میرے بارے میں اتنا برا بھی نہیں ہوں

https://twitter.com/SarfarazA_54/status/1301082472495620097?s=20

جہاں بہت سے صحافیوں اور کھلاڑیوں نے ان کے اس ٹوئیٹ پر ان کی دادرسی کرنے کی کوشش کی، وہیں عوام کی جانب سے ان کو سخت سست بھی سنائی گئیں۔ اس کی وجہ سرفراز احمد کی جانب سے میچ کے دوران ناقص وکٹ کیپنگ کا مظاہرہ تھا۔ لیکن اب جو رپورٹس سامنے آ رہی ہیں ان کے مطابق دراصل معاملہ یہ تھا کہ سرفراز یہ میچ کھیلنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اس حوالے سے دو متضاد رپورٹس دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ ٹیم منیجمنٹ کے مطابق سرفراز میچ اس لئے نہیں کھیلنا چاہتے تھے کیونکہ وہ اس سے قبل تین گھنٹے پریکٹس کر چکے تھے اور اس کے بعد انہیں بتایا گیا کہ وہ یہ میچ بھی کھیلیں گے جس سے سرفراز کو انکار تھا کیونکہ ان کے مطابق وہ اتنے طویل پریکٹس سیشن کے بعد تھک چکے تھے اور اب میچ کے لئے مکمل طور پر خود کو فٹ محسوس نہیں کر رہے تھے۔ تاہم، ٹیم منیجمنٹ کی جانب سے ان کو سمجھایا گیا کہ وہ یہ میچ کھیلیں تو انہوں نے ہاں کر دی۔

دوسری جانب رپورٹس یہ ہیں کہ دراصل سرفراز احمد اپنی کارکردگی کے حوالے سے فکرمند تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پورے دورے پر آخری میچ کھلایا جا رہا ہے اور اگر اس دوران ان سے کوئی بھی انیس، بیس کارکردگی ہو گئی تو یہ ان کے کریئر کے لئے خطرناک ہوگا کیونکہ سارا ملبہ ان پر آ گرے گا۔ ممکن ہے کہ یہ دونوں باتیں ہی درست ہوں کیونکہ وہ تھکنے کے بعد میچ کھیلنے کی صورت میں اپنی کارکردگی کے حوالے سے پریشان ہو سکتے ہیں۔

اور پھر ہوا بھی تقریباً کچھ ایسا ہی۔ یہ تو سرفراز کی خوش قسمتی تھی کہ اس دن تجربہ کار فاسٹ باؤلر وہاب ریاض کی انیسویں اوور میں شاندار باؤلنگ اور حاضر دماغی کے ساتھ ساتھ بہترین تھرو جس نے باؤلنگ اینڈ پر کرسچن جارڈن کو رن آؤٹ کیا کی بدولت ٹیم میچ جیت گئی وگرنہ شکست کا سارا ملبہ سرفراز پر ہی گرنا تھا۔ کیونکہ جارڈن کے آؤٹ ہونے کے بعد معین علی دباؤ کو سنبھال نہیں پائے اور تین گیندوں کے بعد خود بھی آؤٹ ہو گئے اور پاکستان ٹیم میچ جیت گئی۔ معین علی اس وقت تک 33 گیندوں میں چار چوکوں اور چار چھکوں کی مدد سے 61 رنز بنا چکے تھے اور ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ وہ پورا میچ ہی پاکستان کے پنجوں سے چھین کر لے جائیں گے۔ لیکن یاد رہے کہ معین علی کو 7 رنز کے انفرادی سکور پر ایک بہت بڑا چانس اس وقت ملا تھا جب عماد وسیم کی بال پر انہوں نے کریز سے نکل کر ہٹ لگانے کی کوشش کی اور بال ان کے بلے کے باہری کنارے کے پاس سے گزرتی ہوئی سیدھی سرفراز کے پاس چلی گئی لیکن سرفراز اس بال کو ہاتھوں میں نہ پکڑ سکے اور گیند ان کی ٹانگوں میں بمشکل پھنسی جسے نکالنے تک معین علی کریز میں واپس آ چکے تھے۔ یہ انگلینڈ کا آخری خطرناک جوڑا تھا جس کے بعد صرف گریگری ہی کسی حد تک بلے بازی کر سکتے تھے مگر سرفراز نے یہ سٹمپ چھوڑ کر معین علی کو ایک نئی زندگی دے دی جس کے بعد معین علی نے پاکستانی باؤلرز کو ایک مرتبہ پھر 190 رنز سے زائد ہدف کا دفاع کرنا انتہائی مشکل بنا دیا تھا۔

اس موقع پر ایک مرتبہ پھر عالیہ رشید اور سکندر بخت کے درمیان ہوئی جھڑپ جس میں عالیہ رشید نے سکندر بخت کی جانب سے بار بار سرفراز سے متعلق پروگرامز کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور سکندر بخت نے جواباً ان کے ساتھ انتہائی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا تھا، پھر سے شروع ہو گئی۔ سوشل میڈیا پر، یہاں تک کہ کرکٹ کی تازہ ترین خبروں سے متعلق دنیا کی مشہور ترین ویب سائٹ کرک انفو پر بھی لوگوں کا کہنا تھا کہ سرفراز کی جگہ رضوان ہوتے تو لازماً معین علی کو پویلین کی راہ دکھا دیتے۔

اس تنقید کے بعد ہی سرفراز نے وہ ٹوئیٹ کیا تھا جس کا اوپر ذکر کیا گیا اور اب سرفراز سے متعلق یہ خبریں آنے کے بعد واضح ہے کہ وہ اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں اور اگر محمد رضوان فٹ رہتے ہیں اور ان کی کارکردگی اسی طرح برقرار رہتی ہے تو 33 سالہ سرفراز کے لئے قومی ٹیم میں جگہ بنا پانا مشکل ہی نہیں، شاید ناممکن ہو جائے گا۔