'عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت کے لیے دوبارہ کوششیں شروع ہو گئی ہیں'

ابھی اسٹیبلشمنٹ کا نشانہ مکمل طور پرعمران خان ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی گورننس اور معیشت کے معاملات میں دخل اندازی بڑھ رہی ہے لیکن کہیں نا کہیں لندن میں بیٹھے نواز شریف بھی خوش نہیں ہیں۔ اس پوائنٹ پر شاید نواز شریف بھی عمران خان سے اتفاق کرتے ہوں گے۔

'عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت کے لیے دوبارہ کوششیں شروع ہو گئی ہیں'

مستقبل قریب میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت ممکن نہیں تاہم سینیٹر محمد علی درانی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان 'پیچ اپ' ہو جائے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینئر صحافی کامران یوسف نے۔

صحافی کامران یوسف نے اپنے وی لاگ میں کہا ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت ممکن نہیں۔ اس کا ایک مقصد عمران خان کو انتخابات میں حصہ نہ لینے دینا، ان کو نااہل رکھنا اور  ان کو دوبارہ وزیراعظم نہ بننے دینا ہے۔ 

یہ بھی بتایا کہ مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں لیکن 9 مئی کو ہونے والے جلاو گھیراو، جناح ہاوس پر حملے کی جے آئی ٹی  کی جانب سےمبینہ رپورٹ میں عمران خان کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے اور ان پر ایک نیا مقدمہ بننے کا امکان ہے۔  اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے توشہ خانہ کی سزا معطل ہونے کے بعد انہیں سائفر کیس میں 13 ستمبر  تک جوڈیشل ریمانڈ میں اٹک جیل میں ہی رکھا گیا۔  اب اگر ان کی سائفر کیس میں ضمانت ہو بھی گئی تو ان کی 9 مئی واقعات کے مقدمے میں گرفتاری ڈال دی جائے گی۔
آرمی چیف جتنی کوشش کر لیں لیکن ملکی معیشت اس نہج پر ہے کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا۔ الیکشن کروائے جائیں اور 5 سالہ مینڈیٹ کےساتھ منتخب حکومت آئے۔ اس کے بعد میں ہیں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔  جب تک ایس نہیں ہو گا حالات ٹھیک ہوتے نظر نہیں آرہے۔  

ایسے میں سینیٹر محمد علی درانی متحرک ہو گئے ہیں۔ یہ ق لیگ میں بھی رہ چکے ہیں اور مشرف دور میں سینیٹر بھی رہے اور وہ ملٹری حکومت کے حق میں تھے۔جب شہباز شریف جیل میں تھے اور ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلقات بہت خراب تھے تب محمد علی درانی نے شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کی تھی اور اس کے بعد ملک کی قیادت سے ملاقات کی تھی۔ انہی ملاقاتوں کے نتیجے میں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان'پیچ اپ' ہوا تھا۔ درانی صاحب نے رواں ہفتے صدر عارف علوی سے ملاقات کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے 3 مقصد تھے۔ ملک کا معاشی بحران، سیکیورٹی مسائل اور ان کا حل اور سیاسی درجہ حرارت کم کرنا۔

سیاسی درجہ حرارت کم کرنا، انتخابات سے پہلے لیول پلیئنگ فیلڈ بنانا  تاکہ الیکشن کسی بھی حادثے کے بغیر ہو جائیں۔ درانی صاحب کی کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات ٹھیک ہو جائیں۔

کامران کا کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ملاقات پچھلے ہفتے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور ڈی جی آئی ایس آئی ندیم احمد انجم کی صدر عارف علوی سے ملاقات کی ہی کڑی تھی۔

آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی صدر سے ملاقات میں ممکنہ طور پر 1 موضوع بحث الیکشن کی تاریخ تھا کیونکہ ذرائع کی جانب سے دعویٰ کی گیا تھا کہ صدر صاحب الیکشن کے لیے نومبر کی کسی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ لیکن ملاقات کے بعد صدر عارف علوی مکمل خاموش ہوگئے اور  انہوں نے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان سے کہا گیاتھا کہ وہ تاریخ نہ دیں کیونکہ پہلے سے جاری سیاسی بحران میں صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔

دوسری جانب گزشتہ روز پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا اور صدر عاف علوی پر کافی دباو ڈالا گیا  کہ وہ آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں۔ لیکن تاحال ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

نگران وزیر قانون احمد عرفان نے بھی صدر سے ملاقات کی جس میں صدر  نے کہا کہ الیکشن آئین کے مطابق ہونے چاہیے اور آئین کی رو کو مقدم رکھنا چاہیے لیکن اس کے علاوہ کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔

صحافی کا کہنا تھا کہ صدر عارف علوی کے ساتھ  آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ملاقات کو بہت 'لو کی' (Low Key) رکھنے کی کوشش کی گئی تھی اس کے باوجود کہیں سے خبر لیک ہو گئی تھی تو ایسے میں کسی سیاستدان کی جانب سے مذاکرات اور مفاہمت کی کوشش پر کسی کو اتنا شک نہ ہو اور زیادہ زیر بحث نہیں آئے گی۔  یہ نئی کوشش شروع کی گئی ہے کہ ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو نارمل کیا جاسکے۔ ممکن ہے کہ اس سلسلے میں 'ونڈو آف آپرچونٹی' یعنی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین مذاکرات کی کوئی صورت نکل آئے۔ حالانکہ ابھی صورتحال بالکل بھی ایسی نظر نہیں آ رہی۔ لیکن پاکستان کی سیاست ایسی ہے جس میں حالات بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ اس کے لیے آئندہ دونوں اطراف سے اعتماد سازی کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم یہ کوشش ابھی پہلے مرحلے میں ہے۔ ابھی آغاز ہوا ہی ہے۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر اس میں اور لوگ بھی شامل ہو جائیں۔ ابھی اسٹیبلشمنٹ کا نشانہ مکمل طور پرعمران خان ہیں اور جس طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کی گورننس اور معیشت کے معاملات میں دخل اندازی بڑھ رہی ہے لیکن کہیں نہ کہیں لندن میں بیٹھے نواز شریف بھی خوش نہیں ہیں۔ اس پوائنٹ پر شاید نواز شریف بھی عمران خان سے اتفاق کرتے ہوں گے۔

صحافی نے کہا کہ ان تمام خبروں کے باوجود جو گراونڈ سچوایشن یہ ہے کہ عمران خان کو ریلیف ملتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ کور کمانڈر میٹنگ میں بھی کہا گیاکہ جو عناصر فوج اور عوام کے بیچ میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو آہنی ہاتھوں سے لیا جائے گا۔ خاص طور پر بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی اور عمران خان کے بیانیے کے حمایتیوں کے خلاف کریک ڈاون کیاجائے گا۔ 

اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ دو بڑوں کے بیچ لڑائی اس سٹیج پر پہنچتی جارہی ہے کہ جہاں سے واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا اور محمد علی درانی جیسے لوگوں کو بیچ میں شامل کیا جارہا ہے تاکہ اگر ایک آپشن کامیاب نہ ہو تو دوسرے پر عمل کرتے ہوئے مفاہمت کی طرف بڑھا جاسکے۔ کیونکہ ملک میں جو صورتحال چل رہی ہے اس کے حل کے لیے تمام فریقین کو سٹیپ بیک کرنا ہو گا۔