پوری دنیا آج صرف ایک مسئلے پر فوکس کیئے ہوئے ہے اور وہ کرونا وائرس کی وبا ہے۔ جس نے پوری دنیا کو اس وقت لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ شاید اس وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگی کا رہن سہن ، اٹھنا بیٹھنا ، ملنا ملانا سب رہتی دنیا تک کر بدل جائے۔ جس وقت اس وبا سے پوری دنیا لڑنے کے لئے سوچ بچار میں مصروف ہے ، ہماری حکومت بھی کسی حد تک اس وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے لیکن ساتھ ہی شوگر اور گندم مافیا کے بارے میں ایک رپورٹ یا جاری ہوئی یا پھر کسی نادیدہ قوت کے اشاروں پر یہ رپورٹ لیک کر دی گئی ہے۔ کیوں کہ اس میں جو بڑی شخصیات سامنے آئیں ان میں سے پہلا نام جہانگیر ترین کا ہے جبکہ دوسرا بڑا نام خسرو بختیار کا ہے جو وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی تھے .چوہدری پرویز الہی کے بیٹے مونس الہی اور شہباز شریف کے صاحب ذادے سلمان شہباز نے بھی خوب فائیدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ چاہے وہ زرداری خاندان ہو یا صنعت کار رزاق داؤد ، سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور شاید آیندہ بھی یہی گھناونہ کھیل کھیلتے رہیں گے . ملک میں اس وقت نواسی شگر ملیں کام کر رہی ہیں ، جن میں سے چالیس فیصد ملیں سیاسی خاندانوں کی ہیں . اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاستدان شوگر انڈسٹری یا گندم کی درآمد یا برآمد میں کیوں ملوث نظرآتے ہیں ؟ کیا شوگر انڈسٹری اتنی منافع بخش ہے بھی یا اسکے پیچھے کچھ معاملات ہیں اور گنے کی کاشت اس ملک کے کسانوں اور کاشتکاروں کے لئے کتنی فائدہ مند ہیں ؟
سب سے پہلے شوگر انڈسٹری کے منفعت بخش ہونے کا جائزہ لیتے ہیں . پاکستان میں بیشتر کارخانے گنے سے چینی بناتے ہیں جب کہ خیبر پختون خواہ میں چقندر سی بھی چینی بنائی جاتی ہے تاہم ایک آدھ کارخانہ ہے۔رپورٹ لیک ہونے کے بعد میں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جو سندھ شوگر کارپوریشن کے چیئرمین رہے اور سیکرٹری خوراک بھی رہے اور شوگر انڈسٹری پر انہیں انسائکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے. اس کے علاوہ ماہرین سے بھی بات کی تو پتہ چلا کہ پاکستان میں چینی کی صنعت نہ منفعت بخش اور نہ قابل عمل یعنی viable ہی نہیں اور اسکا تمام تر انحصار ناپ تول میل ہیر پھیر اور سبسڈی لیکر برآمد کرنے کی آڑ میں اربوں کھربوں روپے کمانے پر ہے. یہ مل مالکان ذخیرہ اندازی ، بنکوں کے قرضے لیکر معاف کرانے، سبسڈی کی مد اب تک کھربوں کمانے اور حکومتوں کو بلیک میل اور عوام کو لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے. تحقیق کے مطابق سندھ کے وہ علاقے جو سمندر کے قریب ہیں یعنی ٹھٹہ بدین سجاول، یہاں کیوں کہ ہوا میں نمی ہوتی ہے گنے کی کاشت کے لئے موافق ہیں.
اسکے باوجود گنے سے چینی بنانے کی مقدار فی ٹن دس فیصد سےکچھ زیادہ ہے. اسی طرح پاکستان شوگر ملز ایسوسیشن کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں نو فیصد سے زائد جب کہ کل پاکستان میں فی ٹن ریکوری کی شرح دس فیصد ہے. جسے ماہرین تسلیم نہیں کرتے کیوں خشک موسم کی وجہ سے گنے سی چینی کی فی ٹن شرح سات فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی. جب پیداوار کی اتنی کم شرح ہے تو پھر یہ فیکٹری ملکان دن دگنی رات چگنی ترقی کیسے کرتے ہیں اور ارب اور کھرب پتی کیسے بنتے رہتے ہیں یہاں تک پرائیوٹ جیٹ جہاز رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اسکا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ جب کسان گنا فیکٹری لاتے ہیں تو ہفتوں کے حساب سے انکا گنا ٹریکٹروں پر ہی سوکھتا رہتا ہے تا کہ رس سوکھے اور اسکا وزن کم ہو . پھر جب گنے کا وزن ہوتاہے تو ایک من گنے کا وزن تیس کلو لکھا جاتا ہے اور دس کلو کے ہیرا پھیری میں مل مالکان ، اہلکار ، سرکاری افسر سب شامل ہوتے ہیں اور حصہ لیکر مستفید ہوتے ہیں .
اب چینی کی درآمد برآمد اور سبسڈی کے دھندے کی طرف آتے ہیں، تو وزیر ریلوے شیخ رشید کی بیان سے پہلے ہی ہمارے دوست نے بتا دیا تھا کہ چینی ملک سے باہر جاتی ہی نہیں نہ ایکسپورٹ ہوتی ہے، کیوں کہ سبسڈی مل جانے کے بعد ایکسپورٹ کی جانے والی چینی سستی اور ملک میں قیمت زیادہ ہوتی ہے سو وہ چینی ملک میں ہے بیچ دی جاتی ہے ۔ کارخانے دار کیوں کہ با اثر سیاسی لوگ ہوتے ہیں اور فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں اندر کی صورتحال سے واقف ہوتے ہیں گیا فیصلہ سازیاں اہنے مفاد میں کرتے ہیں۔ وہ جعلی سٹیٹ بنک رپورٹ جس میں صرف یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس شخص نے ایکسپورٹ کی ہے، یہ نہیں درج ہوتا کہ کیا چیز برآمد کی گئی اور کہاں کی گئی۔ کلیم داخل کرنے کے لئے چودہ مختلف کاغذات کی ضررت ہوتی ہے ، لیکن تین چار کاغذ جمع کرا کر ہی کلیم حاصل کر لیا جاتا ہے . اور اربوں کا دھندہ گھر بیٹھے کر لیا جاتا ہے . مثال کی طور پر ملک میں چینی ستر روپے ہے اور اس پر دس روپے ایکسپورٹ سبسڈی مل جائے تو ایکسپورٹ والی چینی ساٹھ روپے فی کلو ہو جاتی ہے اسطرح دس روپے کا منافع کما کر چینی ملک میں ہی بیچ دی جاتی ہے . یوں عوام کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے .
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ چینی کی عالمی منڈی میں چینی کی قیمت انتہائی کم ہوتی ہے اور اگرچینی در آمد کی جائے تو عوام کو سستی چینی فراہم کی جاسکتی ہے . میں نے جب آج بروز جمعرات چینی کی عالمی منڈی میں فی کلو چینی قیمت چیک کی تو پتا چلا کہ عالمی مارکیٹ میں فی کلو چینی کی قیمت چھتیس روپے فی کلو کے قریب ہے اگر اس پر پچاس فیصد ٹیکس بھی لگ جائے تو درآمد کی گئی چینی کی قیمت چون پچپن روپے سے زیادہ نہیں رہے گی جس سے نہ صرف عوام کو سستی چینی میسر ہوگی بلکہ حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا تاہم اسکا انحصار ڈالر کی کی قیمت کے اتار چڑھاؤ پر رہے گا . ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی صنعت روزگار کی فراہمی کا سبب ہوتی ہے لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سیاستدان کارخانے دار لوٹ مار کا بازار گرم رکھیں اور لوگوں کا خون نچوڑتے رہیں۔ اب آتے ہیں گنے کی کاشت کی طرف تو جنوبی پنجاب جو دنیا بھر میں بہترین کپاس کی کاشت کے لئے جانا اور مانا جاتا تھا اب وہاں کا بیشتر حصہ گنے کی کاشت کی طرف لگا دیا گیا ہے اور پورے علاقے کے زرعی پیٹرن کو تبدیل کر کے لئے ہمیشہ کے لئے تباہی کا سامان کر لیا گیا ہے . گنے کی فصل تیار ہونے کے لئے اسے پورا سال پانی درکار ہوتا ہے اور کس بھی فصل کے مقابلے میں اسے پانی کی بہت بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے . کاشتکار سال بھر میں صرف ایک فصل اٹھا سکتا ہے . ان کرپٹ سیاست دانوں اور کاروباری چینی مافیا اور پالیسی سازوں نے نہ صرف کپاس کی پیداوار کو نقصان پہنچایا بلکہ پانی کے کم ہوتے وسائل پر مزید دباؤ ڈالا جسے ہماری آیندہ کی نسلیں بھگتیں گی .
وزیراعظم عمران خان کو ابتدائی رپورٹ کے آتے ہی ذمہ دار افراد کے عہدوں کی تبدیلیوں کے بجائے انکو گھر بھیج دینا چاہے اور فرانزک رپورٹ کے بعد انہیں عبرت کا نشان بنا دینا ہوگا ورنہ یہ مافیا لوٹ مار کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہیں گے اور عوام کا خون چوستے رہیں گے. ہاں یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اس ذمہ داری سے بری الزمہ نہیں ہو سکتی کہ اس نے ہی چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی. کیوں کہ درآمد برآمد ابھی تک صرف وفاق کا ہی استحقاق اور اختیارہے۔