ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کا بدعنوانی کے بارے میں رائے عامہ کا سروے حکمران جماعت تحریک انصاف کی حکومت پر ایک طرح کی فرد جرم ہے۔
تقریباً 86 فیصد جواب دہندگان کے خیال میں اس حکومت کی خود احتسابی غیر تسلی بخش ہے۔ تقریباً 66 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ ”احتساب” جزوی اور یکطرفہ ہے۔
درحقیقت، بدعنوانی کی دو اہم ترین وجوہات کمزور احتساب 52 فیصد اور طاقتور لوگوں کا لالچ 29 فیصد ہیں۔ تقریباً 73 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اگر حکومت منتخب بلدیاتی ادارے قائم کرتی اور اُنھیں بااختیار بناتی تو بدعنوانی میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی تھی۔
93 فیصد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس دور حکومت میں مہنگائی پہلے کی دو حکومتوں، پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی بدانتظامی بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے۔ اس سے قبل ایک بین الاقوامی سروے نے تصدیق کی تھی کہ پاکستان گذشتہ تین سالوں میں زیادہ ”کرپٹ” ہو گیا ہے۔ لیکن پاکستانیوں کے معیار زندگی اور سلامتی کو بلند کرنے کے لیے اچھی حکومت پر توجہ دینے اور مثبت نتائج دینے کے بجائے، تحریک انصاف کی حکومت نے یوٹرن کو معمول بنانے کے علاوہ بے بنیاد خطروں کا ہوّ ا کھڑا کیا ہوا ہے۔
اس سے عدم تحفظ اور عدم استحکام میں اضافہ ہوا۔ یہ حزب اختلاف کے گرم تعاقب میں ہے۔ اس نے، میڈیا کی آزادیوں کو ختم کر دیا، عالمی برادری سے کٹ گئی اور ملک کو قرضوں کے گہری کھائی میں دھکیل دیا۔
اب عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو نشانہ بنانے اور اس کی ساکھ کو مجروح کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ سول سوسائٹی کے ماہرین اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سخت اعتراضات کے باوجود ای وی ایم کے استعمال پر ان کا اصرار ایک بنیادی معاملہ ہے۔
انھوں نے وفاقی وزرا، فواد چوہدری، شبلی فراز، اعظم سواتی وغیرہ کو الیکشن کمیشن پر چڑھائی کرنے اور اسے دھمکیاں دینے کے لیے میدان میں اتارا ہے۔
انھوں نے قانون اور آئین کے مطابق دو خالی اسامیوں کو پُر کرنے کے لیے قائد حزب اختلاف سے مشورہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ای سی پی نامکمل ہے۔ اور اب انھوں نے ڈھٹائی سے الیکشن کمیشن کے تحریری احکامات کی خلاف ورزی کی ہے کہ وہ نئی فلاحی اسکیموں کا اعلان کرنے کے لیے خیبرپختونخواہ کا دورہ نہ کریں جب کہ بلدیاتی انتخابات کی مہم چل رہی ہے۔
پارٹی فنڈز میں اربوں روپے کی خورد برد کے بے تحاشا ثبوتوں کے باوجود ای سی پی کے لیے ان کی نفرت اس انداز سے ظاہر ہوتی ہے جس کے ذریعے انھوں نے سات سال تک غیر ملکی فنڈنگ کیس میں اپنا ”دفاع“ کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عمران خان ممکنہ صورت میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف انتقامی کارروائی کے لیے میدان تیار کر رہے ہیں جب کہ یہ ان پر غیر ملکی فنڈنگ کیس میں بدعنوانی کے لیے فرد جرم عائد کرتا ہے۔
یہ کیس اب حتمی مراحل میں ہے۔ اسی قسم کے تاثر کو اس کے کچھ دوسرے بیانات یا فیصلوں سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو انھوں نے لیے ہیں۔
مثال کے طور پر، ان کا ”ہرگز نہیں ” تبصرہ اور افغانستان میں طالبان کی فتح کو ”غلامی کے طوق کو کاٹنا” کا مقصد پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات سے مکمل فائدہ اٹھانا ہے (واشنگٹن کے ساتھ جاری خفیہ مذاکرات کے باوجود)۔
اسی طرح ان کی ”اسلامو فوبیا” پر ”تنقید” اور ”ریاست مدینہ” کے حوالہ جات کا مقصد اس ملک کی بڑھتی ہوئی ”یوتھیا” آبادی کی توجہ اور حمایت حاصل کرنا ہے۔
درحقیقت، بھارت کے ساتھ تجارت پر ان کا یو ٹرن، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے تجویز کردہ ”نارملائزیشن ری سیٹ” کی طرف پہلا قدم عمران خان کے امریکا مخالف موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔
عمران خان جو ذاتیات پر اترتے ہوئے جوبائیڈن، انتھونی بلنکن وغیرہ کو ”لاعلم“ اور نریندر مودی کو ”فاشسٹ“ قرار دیتے ہیں۔
درحقیقت، ڈیموکریسی کانفرنس میں شرکت سے ان کے آخری لمحات میں انکار، صدر بائیڈن کی اپنے ملک کی گرتی ہوئی ”جمہوری” ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کا تائیوان کے معاملے پر چین کے ساتھ کھڑے ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آنے والے مہینوں میں اپنے سیاسی کیریئر کو بچانے کے لیے وی ”موت کے بعد کی زندگی” کے مقبول بیانیے کے ساتھ اپنے سیاسی کیئریر کو دھکالگانے کی کوشش کریں گے۔
سمجھ جانا چاہیے کہ اسیٹبلشمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرے اور دوبارہ بنیادی امور کی طرف توجہ دے۔
اسیٹبلشمنٹ کی سوچ بدلنے میں توقع سے زیادہ وقت لگا ہے کیونکہ کچھ اعلیٰ جرنیلوں کے ذاتی عزائم نے پانی بہت گدلا کر دیا تھا۔ لیکن بظاہر اب معاملہ حل ہو چکا ہے۔
نئے اقدامات اور آپشنز پر غور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اور اسیٹبلشمنٹ کے اثاثہ جات کی طرف سے عمران خان کے خلاف کامیاب عدم اعتماد کا ووٹ آسکتا ہے، جیسے ہی پاکستان مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور اسیٹبلشمنٹ کے درمیان کچھ اہم معاملات پر قابل اعتماد مفاہمت ہوتی ہے۔ چونکہ اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے، اس لیے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم نے اپنا لانگ مارچ کیوں تین ماہ تک ملتوی کر دیا ہے۔
تمام جماعتوں کو اب احساس ہے کہ ہر کوئی اپنی مکمل مرضی نہیں کرسکتا۔ ضروری ہے کہ پہلے عمران خان سے جان چھڑائی جائے اور گھر کو صاف کیا جائے۔ اس لیے ایک عملی سیاسی سمجھوتہ طے ہونے جا رہا ہے۔ یقیناً، عمران خان ایک دن خود کو ”سیاسی شہید“ کہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں جس نے اللہ کی خدمت میں امریکہ اور فوج دونوں کی نفی کی! لیکن اب یہ بیانیہ کام نہیں دے گا۔
عمران خان اتنے تواتر سے بے بنیاد ہوّئے کھڑے کر چکے ہیں، اور اپنے فریب خوردہ پروپیگنڈے اور کھوکھلے خود پسندی سے بہت سے لوگوں کو الگ کر چکے ہیں۔
اب وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے۔ اس کے بجائے، جس دن ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کیا جائے گا، پی ایم ایل این کی جانب سے انتخابی ٹکٹوں کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دیوانہ وار جوش وجذبے کی فضا ہوگی جس سے تاثر جائے گا کہ اُن کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں۔
اس کے بعد کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنے اور اپنے ضمیر کی آواز سننے کے لیے توقف نہیں کرے گا۔ باقی کام، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، مناسب وقت پر ہوتے رہیں گے۔
نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔