وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف 5 دسمبر کو منگلا ڈیم کے دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے ڈیم کے نئے یونٹس 5 اور 6 کا افتتاح کرنا تھا۔ تقریب کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا جس کی بدولت اس واقعے نے ملکی میڈیا پہ ایک تنازعہ کی شکل اختیار کر لی۔
صحافی عون شیرازی نے اس پر اپنے تازہ وی لاگ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق شہباز شریف اور صفدر تنویر الیاس کے درمیان معاملہ دو وجوہات کی بنا پر پیش آیا۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر کو اس تقریب میں شرکت کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے کوئی رسمی دعوت نامہ نہیں بھجوایا گیا تھا جس کی وجہ سے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس حکومت سے خفا تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے تقریب میں خطاب کے دوران کشمیر اور منگلہ کے ان متاثرین کا ذکر نہیں کیا تھا جو ڈیم بننے کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔
عون شیرازی کے مطابق اس معاملے پہ وفاق کا مؤقف ہے کہ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر کو تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی تو ان کو نہیں آنا چاہئیے تھا۔ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیر نے تقریب میں آنا ہی تھا تو ان کو ان لوگوں کے ساتھ نہیں آنا چاہئیے تھا جنہوں نے تحریک انصاف کے پرچم تھام رکھے تھے۔ عون شیرازی کے مطابق شہباز شریف اور وفاقی حکومت کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے اس اہم تقریب میں وزیراعظم آزاد کشمیر کو شرکت کا دعوت نامہ نہیں بھیجا تھا۔ عون شیرازی نے مزید کہا کہ اگر وزیر اعظم آزاد کشمیرکو شرکت کا دعوت نامہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ تحفظات تھے تو ان کو اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے کوئی اور طریقہ کار اختیار کرنا چاہئیے تھا۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کے ذریعے سے وزیر اعظم کے پرسنل سٹاف آفیسر کو ایک لیٹر میں اپنی خفگی اور ناراضگی کا اظہار کر سکتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد اسلام آباد میں واقع مشہور شاپنگ مال سینٹورس کو سیل کر دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سینٹورس کی انتظامیہ کو حکومت کی جانب سے چار نوٹس بھجوائے گئے تھے جس کے بعد حکومت نے کارروائی کی مگر اس معاملے کو سیاسی رنگ دے کر منگلہ والے واقعے سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے کو کشمیریوں کے ساتھ زیادتی کا رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ تحریک انصاف کی طرف سے عمران خان اور اسد عمر کا بھی اس واقعے پر ٹویٹ آیا جبکہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے عطاء اللہ تارڑ نے بھی ایک پریس کانفرنس کر ڈالی۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ردعمل کی وجہ سے معاملہ مزید سیاسی نوعیت اختیار کر گیا۔
عون شیرازی کہتے ہیں کہ اس کے بعد کشمیر میں شہباز شریف کا پُتلہ جلایا گیا جس کو بھارتی میڈیا نے کشمیر میں پاکستان دشمنی کا رنگ دے کر بار بار سکرینوں پر پیش کیا۔ اس کے ساتھ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ بڑا ظلم کر رہا ہے۔ اس تنازعے کے ساتھ ایک اور نکتہ اٹھایا گیا کہ کشمیر میں ترقیاتی کام نہیں کروائے جاتے جس پر عون شیرازی کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو یہ اعتراض اپنے منتخب نمائندوں کے سامنے اٹھانا چاہئیے کیوں کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ان کو فنڈز مل جاتے ہیں جس کو ترقیاتی کاموں پہ لگانا کشمیر کی منتخب حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
عون شیرازی کا کہنا تھا کہ غلطیاں دونوں طرف سے ہوئی ہیں۔ چند سیاسی اختلافات کی وجہ سے کشمیر جیسے قومی سطح کے معاملات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئیے۔ اندرونی لڑائی کی وجہ سے بھارت جیسے خطرناک دشمن کو بھی اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے سلسلے میں زہر اگلنے کا موقع مل گیا ہے۔