'پس ثابت ہوا کہ مسلم لیگ ن اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتی'

'پس ثابت ہوا کہ مسلم لیگ ن اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتی'
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز جو احتساب عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے باعث انتخابی عمل سے باہر ہو چکی ہیں انکی اور سابقہ وزیر اطلاعات پرویز رشید جو ناہندہ ہونے کے باعث سنیٹ کے الیکشن سے باہر ہو گئے تھے، ان دونوں کی ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پر آچکی ہے، مریم نواز کی یہ دوسری آڈیو ٹیپ ہے جو منظر عام پر آئی ہے۔ یہ دونوں ٹیپس میڈیا کے حوالے سے ہیں، ایک میں دو بڑے میڈیا گروپس کو اپنی سیاسی جماعت کی طرف راغب کرنے کی بات کی گئی ہے اور دوسری آڈیو ٹیپ میں مریم نواز اور پرویز رشید نامور صحافیوں حسن نثار اور ارشاد بھٹی کے بارے غیر اخلاقی گفتگو کرتے ہوئے سنے گئے۔

،ان آڈیو ٹیپس کو مبینہ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مریم نواز نے حالیہ پریس کانفرنس میں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ حسن نثار اور ارشاد بھٹی کے حوالے سے کیا اپنی گفتگو پر نادم ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ پہلے مجھ سے معذرت کی جائے کہ میری نجی ٹیلی فون کال کو کیوں ریکارڑ کیا گیا۔ان کی بات ایک طرح سے اعتراف ہے کہ آڈیو ٹیپ اصل ہے۔

ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے مریم نواز اور پرویز رشید سے معافی کا بھی مطالبہ کیا ہے مگر دونوں نے انکار کر دیا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ اور تین بڑے پریس کلبز ایڈیٹروں اور مالکان کی تنظیمیں اس پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہیں۔ جہاں تک مریم نواز کی بات ہے وہ ایک نو دولیتئے سیاسی گھرانے کی سونے کا چمچ منہ میں لیے کر پیدا ہونے والی ایک خودسر خاتون ہیں، جن کی کوئی سیاسی سماجی ادبی اور ثقافتی تربیت نہیں ہے۔

جس خاندان سے ان کا تعلق ہے وہاں کتاب بنی کا کوئی رواج نہیں ہے، اس لیے ان سے اسی جواب کی توقع کی جا سکتی تھی، مگر پرویز رشید ماضی کے نظریاتی سیاسی کارکن رہے ہیں اور کتابیں پڑھنے کا بھی شوق رکھتے ہیں جبکہ سیاسی مخالفین کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں، ان کا ایسا رویہ سمجھ سے بالا تر اور قابل افسوس بھی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وطن عزیز میں عدم برداشت کا کلچر صاحبِ علم لوگوں میں بھی داخل ہو چکا ہے۔

حسن نثار شاعر صحافی اور ڈرامہ نگار ہیں، ان کا کالم پاکستان کے سب سے بڑے قومی روزنامے میں شائع ہوتا ہے ۔ وہ اس وقت پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگار ہیں، صحافت میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ 'پچھلے پہر کا چاند' بھی شائع ہو چکا جبکہ کالموں کی پانچ سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ ٹی وی کے لیے چار ڈرامہ سریل لکھ چکے ہیں ایک سریل 'ہوا پہ رقص' بہت مشور ہوا تھا جس کی ہدایت کاری نامور ادکار عابد علی مرحوم نے دی تھی۔

حسن نثار نے اس آڈیو ٹیپ کے حوالے سے بڑا کمال کا ردعمل دیا ہے اور اپنے بارے میں غیر اخلاقی گفتگو کرنے والوں مریم نواز کو بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں اور پرویز رشید کو پرانا دوست قرار دیا ہے ،حسن نثار جمہوریت اور سیاست دانوں کے حوالے سے اپنا ایک واضح موقف رکھتے ہیں۔ ان کی بات سے اختلاف ضرور کریں مگر گالی نہ دیں۔

اسی طرح ارشاد بھٹی نوے کی دہائی میں رؤف کلاسرا، ارشد شریف اور دوسرے احباب کے ساتھ اسلام آباد کی صحافت میں وارد ہوئے۔ پھر چند مالی مجبوریوں کے باعث صحافت سے دور ہوئے مگر چند سال قبل پھر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ے سوابستہ ہو گئے۔ ان کا کالم بھی بہت پڑھا جاتا ہے وہ سب سے بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ ساتھ دوسرے بڑے ٹی وی چینلز پر بھی ٹاک شوز میں پسند کیے جانے والے تجزیہ نگار ہیں۔


پاکستان مسلم لیگ ن اپنے جس قدر مرضی جمہوریت کا راگ الاپ لے مگر ان دونوں آڈیو ٹیپس منظر عام پر آنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے وہ اختلاف رائے برداشت نہیں کر سکتی۔ ووٹ کو عزت دو صرف سیاسی شعبدہ بازی ہے اور آزادی صحافت ایک جھوٹا نعرہ ہے۔ جب ثاقب نثار صاحب کی مبنہ آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی تھی تب مسلم لیگ ن نے اس کا خیر مقدم کیا تھا مگر جب اپنی منظر عام پر آئی تو نجی زندگی میں مداخلت قرار دیا جا رہا ہے، یہ ہیں مسلم لیگ ن کے تضادات۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔