مسلم لیگ ن دو قائدینِ حزبِ اختلاف اور دو نا اہل لیڈران کی صورت اندرونی تضادات کا شکار

مسلم لیگ ن دو قائدینِ حزبِ اختلاف اور دو نا اہل لیڈران کی صورت اندرونی تضادات کا شکار
مسلم لیگ ن اپنے قیام سے لے کر اب تک کے بدترین اندرونی تضادات کا شکار ہے بظاہر یوں لگتا ہے کہ نون میں ش برآمد کرنے کے منصوبے ظاہری طور پر کامیاب نہیں ہو رہے تاہم  کچھ مترادف معاملات اسی سمت کی جانب جاتے نظر آرہے ہیں۔

کشمیر کا الیکشن ہارنے  کے بعد ایک خاندانی زوم میٹنگ کا بہت تذکرہ ہو رہا ہے جس میں مریم نواز نے چچا اور کزن حمزہ پر الزامات لگائے جواب آں غزل بھی ہوا تو نواز شریف غصے میں اٹھ کر چلے گئے۔ مریم اور حمزہ کی لڑائی اس سے پہلے بھی ایک بار ہو چکی ہے۔

مسلم لیگ ن اپنے بیانے کے موضوع پر بہت الجھن  کا شکار نظر آتی ہے نواز شریف اور مریم نواز خود ساختہ مزاحمتی سیاست چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف اور انکے بیٹے حمزہ شہباز اپنی سیاسی جماعت کو اسی روایتی ڈگر پر لے کر چلنا چاہتے جو اس اسکی اصلی ڈگر  ہے ،اگر مسلم لیگ ن کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ پارٹی روایتی طور پر دائیں بازو کی ہیت مقتدرہ کی بنائی گئی ہے اور اسکے اشاروں پر چلنے والی ایک سیاسی جماعت ہے۔

نواز شریف ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق، انکے معاونین جنرل حمیدگل اور جنرل جیلانی کے بال بچے تھے جن کو بعد میں پنجاب کا وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔1988 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے جنرل حمیدگل نے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا اور بعد ازاں نواز شریف کی خدمات کے اعتراف میں انکو 1990 اور 1996 میں وزیر اعظم بنایا گیا۔

1999 میں پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، نواز شریف خاندان راتوں رات ڈیل کر کے بیرون ملک چلا گیا اس دروان میاں صاحب کے دسترخوان کے رسیا کالم نگار ہم کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ میاں صاحب انقلابی ہو گئے اب وہ ایک بدلے ہوئے لیڈر کے طور سامنے آئیں گے۔ مگر یہ فاضل دوست یہ بات بھول گئے تھے کہ یہاں پھر دسترخوان کے انواح قسم کے پکوانوں نے دماغ کی بحائے معدے سے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ انقلابی ہونے کے لئے ماؤزے تنگ، نیلسن منڈیلا اور چی گویرا ہونا پڑتا ہے۔

منی لانڈرنگ اور کرپشن کی کوکھ سے جنم لینے والے، محلوں میں رہنے والے انقلاب برپا نہیں کرتے۔خیر ہم سب نے دیکھا کہ 2013 کا الیکشن بھی نواز شریف کو شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کی جنرل کیانی سے نصف شب کی درجن بھر ملاقاتوں کے بعد ملا ،اسکے بعد پرویز مشرف کیس ڈان لیکس پانامہ لیکس کے بعد نواز شریف ہیت مقتدرہ سے دور اور عمران خان نزدیک تر ہوتے چلے گئے۔

پاکستان کے سیاست دانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی کارکنان کی تربیت نہیں کرتے اور یک دم ان پر اپنا بیانیہ مسلط کر دیتے ہیں ایک ایسی سیاسی جماعت جو پیدا ہی ہیت مقتدر  کی کوکھ سے ہوئی وہ راتوں رات کیسے انقلابی ہو سکتی جس کے لیڈروں اور کارکنوں کو انقلابات کی تاریخ کا پتہ ہی نہیں، جنہوں نے تاریخ عالم کا مطالعہ ہی نہیں کیا وہ کیسے انقلابی ہو سکتے ہیں۔

ایک  طرف نواز شریف اور مریم نواز جو دونوں محتلف مقدمات میں سزا یافتہ اور انتخابی سیاست سے آؤٹ ہیں وہ ن لیگ کو انقلاب کی ویکسین لگا رہے ہیں، دوسری جانب شہباز شریف جو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف انکے بیٹے حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں اور پارٹی کی پارلیمانی سیاست پر مکمل گرفت رکھتے ہیں وہ ہیت مقتدرہ کے تعاون سے سیاست کرنے کی اپنی جماعت کی روایت پر چل رہے ہیں۔ اگر ہیت مقتدرہ آج نواز شریف کو گرین سگنل دے دے وہ بھی یک دم اچھے بچے بن جائیں گے۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر کے ذریعے نواز شریف اور مریم نواز اپنے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کر چکے ہیں مگر وہاں سے کوئی لفٹ نہیں ملی۔

اس ساری صورتحال نے مسلم لیگ ن کے کارکنوں کو بہت الجھن کا شکار کردیا ہے جس کا ثبوت کشمیر الیکشن کے پنجاب کی سیٹوں میں نارووال اور لاہور کے حلقوں میں ن لیگ کی شکست اور تحریک انصاف کی کامیابی ہے اور اب رہی سہی کسر سیالکوٹ کے ضمنی الیکشن نے پوری کر دی ہے وہ سیٹ جو ن لیگ نے 2018 کے الیکشن میں 17 ہزار ووٹوں سے جیتی تھی اب 7 ہزار ووٹوں سے ہار گئے ہیں ان سارے الیکشن کی نگرانی مریم نواز نے کی۔ انہوں نے کشمیر اور سیالکوٹ میں جلسوں سے خطاب کیا اور نواز شریف کا بیانیہ سامنے رکھا مگر الیکشن ہار گئے  ،رہی سہی کسر نواز شریف نے پاکستان مخالف افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ سے ملاقات کر کے پوری کر دی، اوپر سے سونے پہ سہاگا  کہ کشمیر الیکشن میں گوجرانوالہ سے مسلم لیگ ن کے امیدوار اسماعیل گجر نے کہا اگر ہم الیکشن ہار گئے تو بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی سے مدر مانگے گے۔

اس طرح مسلم لیگ ن کے اندرونی تضادات کھل کر سامنے آرہے ہیں ، مریم نواز گروپ نے سیالکوٹ میں شکست کو دھاندلی قرار دیا ہے جبکہ شہباز شریف گروپ کے ملک احمد خان جو پنجاب اسمبلی کے رکن بھی ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس دھاندلی کے کوئی ثبوت نہیں ، مسلم لیگ ن 2023 کے الیکشن میں اگر اسی سیاسی الجھنوں کے ساتھ اتری تو وہ مزید نقصان اٹھائے گی اور قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی پنجاب میں اپنی عددی حثیت کو مزید کم کرے گی جبکہ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے کشمیر میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور تحریک انصاف کے بعد دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے اور پنجاب میں بھی آنے والے الیکشن میں بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے، نون لیگ نے 2023 کا الیکشن کس بیانے کے تحت لڑنا اگر بروقت فیصلہ نہ کیا تو پھر بڑے سیاسی نقصان کے لیے تیار رہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔