بالعموم گھر رشتے داروں کے ہوں یا گہری دوستوں کے، میرے لیے صرف چند گھنٹے ہی وہاں گزارنے راحت و مسرت کا باعث ہوتے ہیں۔ زیادہ دیر رُکنا عذاب بن جاتا ہے، اگر مجھے کچھ حاصل وصول ہونے کی توقع نہ ہو۔ اور یہ حاصل وصول ہے کیا؟ کسی صاحب علم شخصیت کی قربت کہ اس سے علم میں اضافے اور ذہن کے روشن ہونے کا امکان ہو یا پھر کسی موضوع پر لکھنے کے لیے مواد درکار ہو اور اس کے پانے کے بھی آثار ہوں۔
بیجنگ کے ڈی آر سی (ڈپلومیٹک ریذیڈنسی کمپاؤنڈ) میں تسنیم کا گھر میرے لیے اسی مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا اور میرا دل وہاں فرحت اور آسودگی محسوس کرنے لگا تھا۔ کچھ ویسی ہی جو مجھے اپنے گھر میں محسوس ہوتی ہے۔ گھرانہ چار افراد پر مشتمل تھا۔ دو بچے اور میاں بیوی۔ سب کے سب محبت اور اپنائیت میں گندھے ہوئے۔
تکلفات والے سارے لازمے میں نے اُٹھا کر طاقچے پر رکھ دیے تھے۔ شام میں جب ڈاکٹر ارشد قیولہ لینے کے بعد فریش ہو جاتا تو میرا اکثر اُوپر جانا لازمی ہوتا۔ وہ تو چائنہ پر پورا انسائیکلوپیڈیا تھا۔ علم، ادب، تاریخ اور معاشی ترقی کے اُن سب مشکل مرحلوں سے آگاہ جو اس ملک کی قیادت کو پیش آئے۔ جنہیں انہوں نے اور قوم نے جھیلا۔ وہ اُن خوابوں سے بھی آگاہ تھا جو قیادت نے اپنی قوم کو دکھائے اور جن کی تعبیروں کے لیے انہوں نے قربانیاں دیں اور جن کے شیریں ثمرات سے اب چینی قوم مستفیض ہو رہی ہے۔
ظاہر ہے جب جب ہماری نشست جمتی کبھی کبھی بات پاکستان سے بھی شروع ہو جاتی۔ اس دن بھی ایسے ہی ہوا۔ میں تو ویسے ہی ہر وقت تتے توے پر بیٹھی رہتی تھی۔ پھٹ پڑی تھی۔ کرپشن کرپشن سُنتے سُنتے کان پک گئے ہیں۔ نیا پاکستان بنانے والوں نے تو لگتا ہے کوئی اور سبق پڑھا ہی نہیں۔ بس اسی کا ڈھنڈورا پیٹے جاتے ہیں۔
'ارشد تمہیں یاد ہو گا چند ماہ پہلے ہمارے وزیر اعظم کا دورۂ چین بھی اسی تذکرے کے گرد گھوما اور اس کا چرچا بھی خوب رہا۔ یہاں اُن کی کرپشن کے خلاف کی گئی حسرت آمیز تقریر بھی ہائی لائٹ ہوئی۔ قطع نظر اس کے کہ وہ تقریر صحیح تھی یا غلط، برسرِ موقع تھی یا نہیں، اہم چیز یہ ہے کہ کیا واقعی حقیقت میں ایسا ہی ہے جیسا کہ وزیر اعظم نے فرمایا تھا؟'
ارشد کے لیے میری اس طرح کی دل سوز قسم کی جذباتی باتیں سُننا معمول کا چلن تھا۔ میرے اس سوال پراس نے آہستگی سے کہا:
انگریزی محاورہ ہے؛
There is more to it than meets the eye.
اس محاورے کے مصداق دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا چین کی تمام تر ترقی صرف کرپشن کے خلاف جنگ کی مرہون منت ہے یا اس کے کچھ اور بھی پہلو ہیں۔ ہم آج کے چین کو دیکھ کر آہیں بھرتے اور اُن کی ترقی پہ رشک کرتے ہیں مگر چین 1949 سے لے کر آج تک ایک لمبے اور نہایت تکلیف دہ سفر سے گزرا ہے۔
وہ اُٹھا۔ لاؤنج میں کتابوں کے شیلف سے ایک کتاب نکالی اور میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا؛ 'پہلے اسے پڑھیں، پھر بات کریں گے'۔
یہ ماؤزے تنگ کے ذاتی معالج ڈاکٹر Li Zhisui کی کتاب The Private Life of Chairman Mao تھی۔ دو دن اُسے پڑھتی رہی۔ سچی بات ہے میرے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔
ڈاکٹر لی کو ماؤ کے ذاتی معالج کی حیثیت سے قریباً 26 سال اقتدار اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والے تمام معمولات کو بے حد قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ 1976 میں ماؤ کی وفات کے بعد کچھ عرصہ سزا کے طور پر اُن کو مشقتی کیمپ میں بھی کام کرنا پڑا۔ یہاں سے اُن کی جان تب چھوٹی جب ڈینگ یاؤپنگ کی اقتدار پر مکمل گرفت ہو گئی۔
ڈاکٹر Liکو نشے کی حد تک روزنامچہ لکھنے کی عادت تھی۔ انھوں نے ان تمام ماہ وسال کے حالات جو انھوں نے ماؤ کے معالج کی حیثیت سے گزارے، اس روزنامچے میں محفوظ کیے۔ بعد میں ڈاکٹر لی لگ بھگ 1988 میں امریکہ منتقل ہو گئے جہاں اُنھوں نے اپنی یادداشتوں کو ایک کتاب کی صورت میں شائع کرایا۔
'ڈاکٹر صاحب، مجھے لگتا ہے کہ اگر ہمارے محترم وزیر اعظم اِس کتاب سے کچھ راہنمائی لے لیتے تو شاید ان کی تقریر مختلف ہوتی'۔
ڈاکٹرارشد کھلکھلا کر ہنسے۔
'ہمارے حکمرانوں کو کتاب سے کوئی دلچسپی ہو تو پڑھیں گے۔ آکسفورڈ کے پڑھے لکھے وزیر اعظم کا جنرل نالج حد درجہ قابل رحم ہے۔ ایسی ایسی بونگیاں چھوڑتا ہے کہ افسوس ہوتا ہے۔ ویسے یہ صورت کچھ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ ہی نہیں، امریکہ جیسے ملک کے حکمران بھی کبھی کبھی ایسی ہی احمقانہ یاوہ گوئیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں'۔
میں بھی اول درجے کی احمق اور جذباتی عورت ہوں۔ کتاب نے ماؤ کے اُس تراشیدہ بت میں دراڑیں ڈال دی تھیں جو میرے تصور نے زمانوں سے گھڑ رکھا تھا۔ مضطرب ہو گئی تھی۔ سچی بات ہے مجھ سے وہ سب حماقتیں ہضم ہی نہیں ہو رہی تھیں جو ماؤ سے سرزد ہوئیں۔ ایک بار پڑھنے کے بعد اُسے دوبارہ پڑھا اور اب بیٹھی ڈاکٹر ارشد سے تبادلہ خیال کر رہی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین ماؤ ایک نہایت کرشماتی اور سحر انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ اُن کی قیادت میں چینی کیمونسٹ پارٹی نے چیانگ کائی شیک کی حکومت کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی جس کے نتیجے میں 1949 کو چین میں کیمونسٹ حکومت قائم ہوئی۔ ماؤ نے کیمونسٹ پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔ 1949 سے 1976 میں ماؤ کی وفات تک اُنھوں نے چین اور کیمونسٹ پارٹی پر اپنے اقتدار کی گرفت ڈھیلی نہ ہونے دی اور نہ ہی کسی ایک کو آگے آنے کا موقع دیا۔
'یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم مگر میں کیا کروں؟'
میری جذباتیت پر انہوں نے رسان سے کہا۔
'انسان خواہ عام ہو یا عظیم، خوبیوں خامیوں کا مرقع ہوتا ہے۔ بس تناسب کا فرق ہوتا ہے۔ اب چواین لائی اور ماؤ کا تقابلی جائزہ لیں تو شخصی اور انتظامی خوبیوں میں چو این لائی کا پلڑا بھاری ہے تاہم ماؤ کے کارنامے اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔ دراصل ماؤ بنیادی طور پر دیہی چین کے خوش حال کسان خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ گھر والے انہیں حساب کتاب میں مکمل دسترس والے مضامین میں طاق کرنا اور اپنے فارم ہاؤس پر کام کرتے دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر لڑکا تو مارکسزم اور لینن ازم کا پرستار بن چکا تھا۔ اسے تو لانگ مارچ جیسی عظیم اور تاریخ میں مثال بن جانے والی جدوجہد کی سربراہی کرنا تھی۔ چینی کیمونسٹ پارٹی کی قیادت کا بوجھ اٹھا کر اس آزاد ہونے والے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی تھی۔ اور اس نے ایسا ہی کیا'۔
کیمونسٹ Ideology اور Intellectual Capacity کے لحاظ سے وہ کافی مضبوط تھے لیکن مکمل اقتدار کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کوعقل کُل سمجھنے لگ جاتا ہے۔ تنقید کو گوارا نہیں کرتا۔ یہی صورت ماؤ کے ساتھ ہوئی۔ صورت حال مزید ابتر ہو جاتی ہے جب آپ تمام تر اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کر لیتے ہیں۔ چونکہ ماؤ اب بلا شرکت غیرے چین کے مطلق العنان حکمران تھے، اُن کو بھی اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے کا مرض لاحق ہو گیا تھا۔
سال 1957 روس میں کیمونسٹ کانفرس کے اختتام پہ ماؤ نے اعلان کیا کہ وہ Great Leap Forward کے نام سے ایک مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چین میں سٹیل کی پیداوار 15 سال کے عرصے میں برطانیہ کے مقابلے پر دوگنی اور زرعی پیداوار چوگنی ہو جائے گی۔ یہ ایک نہایت بودی اور سطحی درجہ کی سکیم تھی جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ تمام تر ماؤ کے تخیلات پر مبنی تھی۔
اور بس یہاں میری جذباتیت نے مجھے سان پر چڑھا دیا تھا۔ آخر اس کے اتنے دانا ساتھی چواین لائی Zhou Enlai جیسے کتنے ہی تھے۔ کوئی اتنا جی دار اور جیالا نہ تھا جو اعتراض کرتا کہ ایسا مت کرو، یہ تباہی کی طرف جانے والا راستہ ہے۔
ارشد نے گہری مسکراہٹ سے مجھے دیکھا اور کہا؛
'مخالفت تو ہوئی۔ سمجھدار لوگوں نے کھلم کھلا کہا۔ احتجاج اور ردعمل کی ایک صورت مزاحمتی شاعری کی صورت میں بھی سامنے آئی۔ چونکہ اقتدار پر گرفت بہت سخت تھی۔ دماغ میں خناس بھی بھر گیا تھا۔ تو ان تمام لوگوں جنہوں نے اس بودی اور بے ہنگم مہم کی مخالفت کی، انہیں غدار کہنے میں پل نہیں لگا۔ اُن پہ کرپشن کے الزامات لگائے گئے۔ ان کو بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ ٹھہرایا گیا۔ ان سب کو اذیت ناک قید کی سزائیں دی گئیں'۔
'اس تمام مشق کا مقصد یہ تھا کہ ماؤ اپنے مخالفین کو اپنے سامنے سے ہٹانا چاہتے تھے۔ ان کو دوسروں کے سامنے عبرت کی مثال بنانا چاہتے تھے۔ اس میں وہ کامیاب ہوئے'۔
میں سُن رہی تھی مگر وہ لمحے بھی میرے سامنے تھے۔ جب میں یہ سب پڑھ رہی تھی۔ چند لمحوں کے لیے کتاب میں نے بند کر دی اور خود سے کہا تھا، بس ایسے ہی اور یہ سب تماشے میرے ملک میں بھی ہوتے رہے ہیں اور ابھی بھی ہو رہے ہیں۔ میرے ملک کے بھی کرشماتی شخصیت کے مالک لیڈر نے یہی کیا تھا۔ راتوں رات اپنے ایک حکم سے تیزی سے صنعتی ترقی کی طرف گامزن ملک کو قومیانے کی پالیسی پر چڑھا کر اس کی صنعتوں کا بیڑہ غرق کر دیا۔ ملک 1960 کی دہائی میں عروج کے جو پوڈے چڑھا تھا وہ آنے والی دہائیوں میں سب اُتر کر نیچے زمین پر آ گیا۔
جب تمام مخالفین کا بندوبست ہو گیا تو بڑی دھوم دھام سے گریٹ لیپ فارورڈ کا آغاز ہوا۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پورے چین میں دیسی بھٹیاں لگائی گئیں اور کیمونسٹ پارٹی کے عہدے داران نے عام چینیوں کے روزمرہ استعمال کے برتن اور اُن کے گھر میں موجود لکڑی کی ہر شے اُن بھٹیوں میں جلا کر راکھ کروا دی۔ اب ان عام دیسی بھٹیوں میں اعلیٰ درجے کی سٹیل تو کیا بننی تھی، اُلٹا عام چینیوں کے گھروں میں برتن بھی نہ رہے۔ زرعی اصلاحات کا بھی حال کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب سارے چین کو سٹیل پیدا کرنے پہ لگا دیا تو اُس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسان کھیتوں سے فصل تک نہ سمیٹ سکے اور ساری کی ساری فصلیں ضائع ہو گئیں۔
1961 تک چین شدید قحط کا شکار ہو گیا۔ اس تمام تر عرصے میں چیئرمین ماؤ کو 'سب اچھا ہے' کا ڈرامہ بھرپور طریقے سے دکھایا گیا۔ اس میں بدترین کردار لین پناؤ اور جیانگ چھینگ کا تھا جنہوں نے ماؤ کو خدا اور دیوتا کا روپ دے کر اپنے مقاصد پورے کیے۔ پارکنسن کی بیماری بھی ساتھ چمٹی ہوئی تھی جس نے خوشامدیوں پر اعتماد بڑھا دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک کو اپنی جان عزیز تھی۔
جب صورت حال اس قدر سنگین ہو گئی کہ بیجنگ کے شہریوں نے بھوک کی وجہ سے گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تو ماؤ کو احساس ہوا کہ اُن کی بے سوچی سمجھی اور بیہودہ مہم نے ایک عام چینی پہ کیا ظلم ڈھایا۔ تب اُنھوں نے خود باہر نکل کے مخالف صوبوں کے دورے کیے تو اندازہ ہو گیا کہ کس وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ چیئرمین اپنی غلطی تسلیم کرتے اور اہل لوگوں کو آگے لاتے تا کہ حالات کچھ بہتر ہوتے۔ مگر یہ اقتدار اور اس کا نشہ ایسی ظالم چیز ہے کہ انسان ہر حد پار کر جاتا ہے۔
اب ماؤ کے اشارے پہ ایک اور مہم شروع کی گئی۔ بے خبر چینی عوام کو ایک نئی گولی یہ دی گئی کہ سکیم تو بہت اعلیٰ تھی اور چیئرمین کی نیت بھی لیکن کمیونسٹ پارٹی کے عہدیداروں کی کرپشن کی وجہ سے یہ ناکام ہو گئی۔ یہ تمام کرپٹ عہدیداران اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ ایک دفعہ پھر سے وہی ڈرامہ دہرایا گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ تب سکیم کے مخالفوں کی سرکوبی کی گئی۔ اب یہ تلوار اُن پہ چلی جنھوں نے اِس سکیم کی کامیابی کے لیے انتھک محنت کی۔ اب اگر بیج ہی خراب ہے تو فصل نہ ہونے پر بے چارے کسان کا کیا دوش؟
اس دفعہ اس مہم کو ماؤ کی بیگم چیانگ چھانگ Jiang Qing نے لیڈ کیا اور پارٹی عہدیداروں کی بلی چڑھانے کے لیے طلبہ کو استعمال کیا گیا۔ ثقافتی انقلاب (Cultural Revolution) کے نام پہ طلبہ نے وہ تباہی مچائی کہ خدا کی پناہ۔ کس بے دردی سے 50 ,50 سال کی عمر کے لوگوں کو کل کے لونڈوں نے سڑکوں پہ گھسیٹا۔ انہیں مارا پیٹا۔ ان کی تذلیل کی۔ یہ ایک الگ المناک داستان ہے۔
اور نعرہ کیا تھا؟ کرپشن کے خلاف جنگ۔ کیمونسٹ پارٹی کے عہدیدار کرپٹ تھے۔ اُن کو سزا دینا لازم۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہی ٹھاک کے تین پات۔ جب اہل افراد کو کھڈے لائن لگا دیا جائے اور کرپشن کی تلوار ہر ایک کے سر پر ٹانگ دی جائے تو کسی نے کام خاک کرنا ہے۔ مختصراً یہ کہ چین کے حالات دگرگوں تھے۔ جب تک اقتدار چیئرمین ماؤ کے اختیار میں رہا یہ ایسے ہی رہے۔ پھر جب چیئرمین کا 1976 میں انتقال ہو گیا، ایک نئی قیادت کو اُبھرنے کا موقع ملا تو چین کا صحیح سمت میں سفر شروع ہوا۔
ازدواجی زندگی میں چار بیویاں تو ریکارڈ پر ہیں۔ دو تو مر گئیں۔ ایک کو طلاق دے دی۔ چوتھی جو فلم اور آرٹ سے متعلق تھی 1976 تک چلی۔ امور مملکت میں چار کے ٹولے کا ایک اہم رکن تھی۔ یہ چار کا ٹولہ کون لوگ تھے؟ کیمونسٹ پارٹی کے بڑے اور سرکردہ لوگ چھانگ چھون چھیاؤ Zhang Chunqiao، وانگ ہونگ ون Wang Hongwen، یاؤ ون یوآن Yao Wenyuan اور چوتھی ماؤ کی بیوی لیڈنگ لیڈی۔ ثقافتی انقلاب کی سرگرمیوں میں بھی چیانگ چھانگ Jiang Qing کی مرکزی حیثیت تھی۔
چاروں خبیث، شیطانی خصلتوں کے مالک، اقتدار اور عہدوں کے بھوکے، انسانوں اور انسانیت کے قاتل ہی سمجھے جاتے تھے۔
ان کے علاوہ بے شمار کیا لاتعداد عورتیں اور لڑکیاں جو ایک عظیم انقلابی لیڈر کے طور پر اُس کی پوجا کرتی تھیں، اُسے اوتار کا درجہ دیتی تھیں، اس کی ہوس کا شکار ہوئیں۔ کہہ لیجیے جنسی لحاظ سے شخصیت مریضانہ تھی۔ جنسی خواہش کا ہر وقت اسیر رہتا تھا۔ لڑکے بھی استعمال میں تھے۔ یہ دور بھی چینی تاریخ کا بھیانک دور تھا۔
ذاتی زندگی بارے بھی بہت باتیں تھیں۔ بدنی صفائی میں بڑی چور شخصیت تھی۔ نہانے سے چڑتا۔ لباس تبدیل کرنے اور دانتوں کی صفائی کے سلسلے میں لاپرواہی بہت تھی۔
شخصیت میں تضادات تھے۔ جوتے اور کپڑوں میں پیوند لگتے مگر جوتے انتہائی قیمتی ہوتے۔ گو پرانے جوتوں میں آرام محسوس ہوتا اور نئے تنگ کرتے۔ حتیٰ کہ ملازم یا ساتھی انہیں پہن کر کھلا نہ کر دیتے۔ کپڑوں کی رفوگری میں بھی جو کپڑا استعمال کیا جاتا وہ شنگھائی سے اعلیٰ اور بہترین ٹکڑوں کی صورت میں آتا۔ ایک ایسے وقت میں جب چین میں رہائش بہت بڑا مسئلہ تھا کہ بڑے بڑے خاندان ایک کمرے میں رہنے پر مجبور تھے، ماؤ کی رہائش سپر کلاس ہوتی۔ لائف سٹائل، بودوباش اور کھانا پینا سب بہت امیرانہ تھے۔
ارشد سے میں نے اس کی ذات کے ان دونوں پہلوؤں کا موازنہ لینن کی ذات سے کرتے ہوئے کہا۔
لینن اس کا لیڈر تھا۔ ساری زندگی کرپسکایا جیسی بیوی کے ساتھ گزارنے والا جو اس کی رگ رگ سے واقف اور حد درجہ مزاج آشنا تھی۔ لینن نے بڑے بڑے خواب دیکھے تھے مگر اس کی ذہنی سوچ، کام کا طریق کار اور اس کی ادائیگی سبھی سائنسی انداز کے تابع تھے۔ روس میں قحط سالی کے دنوں میں جب کارکنوں کو کھانا راشن پر ملتا تھا، ملک بھر سے لینن کو گوشت، پھلوں، سبزیوں اور بیکری کی اشیا تحائف کی صورت میں آتی تھیں جنہیں وہ ہمیشہ فوراً اسپتالوں اور بچوں کے سکولوں میں بجھوا دیتا۔
ایک دن اس کی بہن ماریا ایلنچنا Ilyinichnaنے کہا؛
'ولوڈایا تم کچھ اپنے لیے بھی رکھ لیا کرو۔ تم بھوک سے کمزور ہوتے جا رہے ہو۔ انقلاب کی کامیابی کو تمہاری صحت کی ضرورت ہے'۔
'میں کچھ نہیں کھا سکتا۔ مجھے علم ہے کہ میرے کارکن اور میرے لوگ اور بچے بھوکے ہیں'۔
'بہتر ہو گا کہ آپ چو این لائی سے اس کا موازنہ کریں'۔ ڈاکٹر ارشد بولے۔
میرا تو جی چاہتا ہے کہ میں اپنی پوری قوم کو یہ کتاب پڑھواؤ ں اور اُن کو بتاؤں کہ ملکوں کی سیاسیات، اقتصادیات اور معیشت کے مسائل اتنے سادہ نہیں ہوتے جتنے ہمارے لیڈر ہم کو بتاتے ہیں۔ بجائے ہر وقت کرپشن کی ڈگڈگی بجانے کے اور اپنی تمام تر ناکامی کا ملبہ میڈیا یا اِدھر اُدھر ڈالنے کے اگر ہماری حکومت مسائل کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش کرے، پھر ان کے حل کے لیے اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپے، ان کو کام کرنے کی آزادی دے، تب تو ہمارے حالات سدھرنے کی کوئی اُمید ہو سکتی ہے وگرنہ الٹے سیدھے راگ الاپنے سے نہ تو کبھی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ کبھی ہوں گے۔ بھلے ہی آپ 500 لوگوں کو چھوڑ، 5 لاکھ لوگوں کو پھانسی لگا دیجیے۔