بٹگرام ہزارہ ڈویژن کا اہم اور مرکزی ضلع ہے جو جغرافیائی لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ ضلع کی آبادی تقریباً 7 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ضلع بٹگرام قومی اسمبلی کے ایک اور صوبائی اسمبلی کے دو حلقوں میں منقسم ہے جس میں دو تحصلیں بٹگرام اور الائی اور 20 یونین کونسلز شامل ہیں۔
ضلع بٹگرام قدرتی طور پر سرسبز اور گھنے جنگلات، فلک بوس پہاڑوں، لہلہاتی ہوئی حسین وادیوں، کھیتوں کلیانوں، سانپ کی طرح بل کھاتے ندی نالوں، قدرتی چشموں اور آبشاروں کی سرزمین ہے۔ سیاحتی لحاظ سے یہ سوات، مری اور زیارت جیسے تفریحی مقامات سے قدرتی حسن میں کم نہیں۔
پاکستان بننے کے بعد اب تک لوگ چاند اور مریخ کو مسخر کر گئے مگر بٹگرام کے مکین وہی دقیانوسی زندگیاں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ تعلیمی، طبی، مواصلاتی، سیاسی اور ترقیاتی میدانوں میں بٹگرام شاید واحد بدقسمت ضلع ہے جو اب تک کسی مسیحا کے انتظار میں ہے اور آج تک زندگی کے ہر میدان میں ترقی سے محروم ہے۔
خدا جانے بٹگرام اس ترقی یافتہ دور میں بھی تمام ضروریاتِ زندگی سے کیوں محروم رہا اور اس پسماندگی کے ذمہ دار کون ہیں؟ یہ اب تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ شاید بٹگرام کی پسماندگی اس ضلع کے عوام کا مقدر ہے یا سیاسی شعور کے فقدان کے باعث یہاں کے سیاسی پنڈت انگریز کے فارمولے (Divide and Rule) کے مطابق عوام کو ڈلہ، جبنوں میں تقسیم کر کے سیاسی آزادی اور ترقی نہیں دینا چاہتے۔
یہ تمام مسائل ایک طرف مگر یہاں کی خواتین آج بھی دقیانوسی روایات کے سائے تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ جرگہ سسٹم اور علاقے کے بدترین رسم و رواج نے خواتین سے ووٹ جیسا بنیادی حق بھی چھین رکھا ہے۔ یہاں کی خواتین کو آج بھی الیکشن میں حصہ لینا تو درکنار، اپنا لیڈر منتخب کرنے اور حق رائے دہی استعمال کرنے کا اختیار بھی نہیں دیا گیا۔ الیکشن کے وقت جرگہ بٹھا کر قران پر حلف لیا جاتا ہے اور پھر کوئی بھی خاتون ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشن نہیں جاتی۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
بٹگرام سے تعلق رکھنے والی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی طالبہ گل مینہ خان کہتی ہیں کہ بٹگرام کی لڑکیاں بڑی مشکلوں کے بعد تعلیم حاصل کرنے کیلئے گھروں سے تو نکل آتی ہیں مگر ان کو آج بھی ووٹ کا حق نہیں دیا گیا۔ راتوں کو جرگہ بٹھا کر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ خواتین پولنگ ڈے پر گھروں سے باہر نہیں نکلیں گی اور ووٹ کاسٹ نہیں کریں گی۔ یہاں خواتین کے ووٹ پول تو ہو جاتے ہیں لیکن وہ ووٹ خواتین نے پول نہیں کیے ہوتے۔
گل مینہ کے مطابق خواتین کے ووٹ وہاں کے امیدوار اور گاؤں کے بڑے پری پول دھاندلی کے تحت خود ہی پول کر دیتے ہیں اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ خواتین نے حق رائے دہی استعمال کر لیا۔ جرگہ سسٹم نے خواتین کو حقوق نہ دینا اپنی انا اور ضد کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔
بٹگرام میں پیرزئی ملکال قوم کے سربراہ فیاض محمد جمال خان کہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل ہی الیکشن کمیشن کو بتا دیا تھا کہ جہاں جہاں خواتین کے ووٹ پول نہیں ہوئے وہاں کا نتیجہ رکوا دے مگر اس پر عمل درآمد کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ ان کے مطابق بٹگرام کی مارکیٹوں اور ہسپتالوں میں جب خواتین جا سکتی ہیں تو پھر ووٹ کے حق سے ان کو کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟
بٹگرام سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی احسان نسیم کہتے ہیں کہ بٹگرام میں خواتین کا ووٹ کاسٹ کرنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ میڈیا جب خواتین کے حقوق کیلئے آواز بلند کرتا ہے تو وہاں کے علماء کرام اور روایتی جرگہ سسٹم بیچ میں حائل ہو جاتا ہے۔ وہ خواتین کو حقوق دینا پختون ولی روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ احسان نسیم کے مطابق خواتین کو حق رائے دہی سے محروم رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
احسان نسیم کے دعویٰ کے مطابق امیدواران اپنے اپنے آبائی پولنگ سٹیشنز میں خواتین کے شناختی کارڈز کے ذریعے دھاندلی کیلئے خواتین کے پولنگ بوتھ میں ووٹ کاسٹ کرتے ہیں مگر خواتین کو لایا نہیں جاتا۔ احسان نسیم کہتے ہیں صدیوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ خواتین ووٹ کاسٹ نہیں کریں گی، حکومت کو اس غیر انسانی سلوک پر بھی نظرڈالنی چاہیے۔
بٹگرام سے منتخب رکن قومی اسمبلی پرنس محمد نواز خان کہتے ہیں کہ یہ ہمارے علاقے کی روایت ہے کہ یہاں خاتون ووٹ نہیں ڈالے گی کیونکہ ہمارا علاقہ اسلامی ہے۔ اگرچہ خواتین کیلئے الگ پولنگ سٹیشنز قائم کیے جاتے ہیں لیکن لوگوں کی ذہنیت ایسی ہے کہ وہ اس روایت کو نہیں چھوڑ رہے۔ آہستہ آہستہ لوگ سمجھیں گے تو خواتین کے ووٹ پول ہو جایا کریں گے۔