ارکان کی اکثریت اسمبلی اجلاسوں میں اظہارِ خیال کرنے سے گریزاں رہتی ہے
سندھ کی موجودہ اسمبلی نے ایک نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے اور حالیہ سیشن کے دوران سندھ اسمبلی کے 168 ارکان میں سے 50 مکمل طور پر خاموش رہے، انہوں نے کسی معاملے پر آواز بلند کی اور نہ ہی قانون سازی کے حوالے سے کوئی فعال کردار کیا۔ ان خاموش ارکان کا تعلق حکومت سے بھی ہے اور حزبِ اختلاف سے بھی۔
سندھ اسمبلی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے لیے الگ وطن کے حصول کی حمایت میں سب سے پہلے قرارداد پیش کی تھی۔
سندھ اسمبلی کے چوتھے سیشن کا آغاز نو جنوری کو ہوا جو 27 روز تک جاری رہا اور اس دوران 77 گھنٹوں اور 20 منٹ کی کارروائی ہوئی۔
تین بار تو ایسا بھی ہوا کہ اجلاس بغیر کسی کارروائی کے ختم ہو گیا اور کچھ اجلاس تین گھنٹوں سے زیادہ دیر تک جاری رہے۔ سندھ اسمبلی کا طویل ترین اجلاس 22 فروری کو ہوا جو پانچ گھنٹوں تک جاری رہا۔ واضح رہے کہ ایک اجلاس اوسطاً دو سے تین گھنٹوں پر محیط تھا۔
سندھ اسمبلی کی حالیہ کارروائی کے دوران صحت، تعلیم اور میونسپل سے متعلقہ ایشوز کے علاوہ ملک کے دفاع اور سکیورٹی پر اہم قانون سازی ہوئی۔
یہ اَمر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ حالیہ اجلاس کے دوران 50 سے زائد ارکان نے کارروائی میں حصہ نہیں لیا اور اوسطاً 60 سے 71 ارکان ہی اجلاس میں شریک ہوتے رہے۔
خاموش ارکان کی اکثریت صوبے کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتی ہے۔ پی پی پی کے قریبا 20 ارکان نے محض ایک سے چار منٹ تک بات کی۔ ارکانِ سندھ اسمبلی عبدالکریم سومرو، عبدالرؤف کھوسو اور احمد رضا شاہ جیلانی کے پاس سندھ اسمبلی میں زیرِ بحث لانے کے لیے کوئی عوامی ایشو نہیں تھا۔
سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی عزیز اور رُکن صوبائی اسمبلی علی حسن نے متعدد اجلاسوں میں شرکت تو کی لیکن انہوں نے کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ ارکانِ اسمبلی کے پاس اپنے حلقے کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کچھ تھا اور نہ ہی انہوں نے قانون سازی کے عمل میں کوئی حصہ لیا اور کچھ تو سرے سے ان اجلاسوں میں شریک ہی نہیں ہوئے جن میں نادر علی مگسی، علی نواز خان مہر، طارق مسعود ارائیں، مخدوم رفیق زمان، محمد تیمور تالپور، جام خان شورو، سہیل انور، محمد علی مالکانی اور ملک اسد سکندر شامل ہیں۔
تاہم، صرف پی پی پی کے ارکان کو ہی موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بھی بہت سے ارکان ’’خاموش‘‘ رہے ہیں۔ اس فہرست میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے اراکینِ صوبائی اسمبلی کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا ذکر ہو تو اس کے 14 ارکان میں سے تین ’خاموش‘ رہے جن میں علی گوہر خان مہر، محمد راشد شاہ اور معظم علی خان کے علاوہ تحریکِ لبیک پاکستان کے رُکن محمد یونس سومرو شامل ہیں جو سرے سے ہی متعدد اجلاسوں میں شریک نہیں ہوئے۔
یاد رہے کہ سندھ اسمبلی میں روزانہ کی بنیاد پر قریباً 17سے 18 لاکھ روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے اراکین کو ہر اجلاس میں شریک ہونے کا اعزازیہ تو ملتا ہی ہے بلکہ اسمبلی سیکرٹریٹ کے حکام اور ملازمین بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ اسمبلی کے اجلاسوں میں سکیورٹی، بجلی کے بلوں اور ساؤنڈ سسٹم کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں۔
اسمبلی کے ارکان اعزازیے کے علاوہ ہر اجلاس میں شریک ہونے کا سفری الاؤنس بھی وصول کرتے ہیں۔ ان ارکان کی ماہانہ تنخواہ، میڈیکل کے اخراجات ، ٹیلی فون کے بل اور دیگر سہولیات اس کے علاوہ ہیں۔