پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان کو پچھلے نو ماہ میں جتنی تنقید برداشت کرنا پڑی اس سے حکومت نے کیا سبق سیکھا ہے؟ یا مستقبل میں قوم کو کتنی بہتری کی امید ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اس عرصے میں حکومتی پارٹی کو سیاست اور اقتدار میں آٹے، دال کے بھاؤ کا پتہ ضرور چل گیا ہے۔
عوام کو اعتماد اور یقین ہے کہ آج کے پاکستان کو درپیش مسائل کی روشنی میں کابینہ کے ردوبدل کے بعد کی صورتحال میں وزیراعظم عمران خان نے درپیش معاملات، ترجیحات اور مشکلات کا دوبارہ احاطہ کیا ہو گا۔ معاشی میدان میں جہاں مہنگائی، افراط زر اور روپے کی قدر کو قابو کرنے کی ضرورت ہے وہاں نہ صرف مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بہت کچھ قابو میں لانا ہے بلکہ حکمرانی اور انتظامی معاملات میں بھی اہلیت، لگن اور محنت کو یکجا کرنا ہے، ان تمام معاملات کے ساتھ ساتھ میری رائے میں حکومت، پارٹی اور قیادت کو اپنی زبان پر قابو کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ایک لڑکے نے کالج کا داخلہ فارم بھرتے ہوئے اپنے باپ سے پوچھا کہ 'مادری زبان' کے خانے میں کیا لکھوں؟ باپ بولا! بڑی لمبی، انتہائی بے قابو اور بہت کالی۔ اگر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی پارٹیوں کے گوشواروں میں مادری زبان کا خانہ رکھا ہوتا تو حکومتی جماعت کے لیے کچھ اسی طرح کے الفاظ لکھے جاتے۔
پچھلے نوہ ماہ میں وزیراعظم عمران خان کی شخصیت اور پارٹی کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لیا جائے تو میری نظر میں سب سے زیادہ نقصان زبان کی وجہ سے ہوا۔ چاہے وہ وزیر اعظم ہوں یا انکی وفاقی اور صوبائی کابینائیں۔ انتخابی مہم سے لے کر آج تک اتنا کچھ بول دیا ہے اور لگاتار بولے جا رہے ہیں۔ اکثر کو خود پتہ نہیں کیا کچھ کہہ دیا ہے اور اس کہے کے لئے عملی طور پر کیا کچھ کرنا پڑے گا؟ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے رفقا کے بلند و بانگ دعوؤں نے غریب عوام کی امیدوں کو الیکشن سے پہلے جس بلندی پر پہنچا دیا تھا اس کے نتائج خود حکمران جماعت نے پچھلے نو ماہ میں نہ صرف دیکھے بلکہ بھگتے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب اپنے کیے عمل نہیں بلکہ بولے الفاظ کا دفاع کرنے کے لئے نہ صرف ماضی کی حکومتوں کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرانا پڑا بلکہ اس دلدل کے موجود ہونے سے ناآشنائی کا اظہار بھی کر ڈالا اور خود ہی پارٹی کی اہلیت پر شک کرنے کا پہلا بڑا موقع فراہم کیا۔
زبان انسانی جسم کا وہ عضو ہے جس میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن اس میں نقصان پہنچانے کی صلاحیت باقی تمام اعضا سے زیادہ ہوتی ہے۔ زبان میں جسم کے باقی تمام اعضا کو اپنے تابع کرنے کی قابلیت بھی پائی جاتی ہے۔ زبان کی سب سے منفرد چیز اس کا بے قابو ہونے اور پھسلنے کی صلاحیت ہے۔ اگرچہ زبان کا وزن بہت کم ہے مگر پھر بھی ہم اسے سنبھال نہیں سکتے۔ زبان کے بے قابو ہونے اور پھسلنے کی ایک سائنسی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ “متحرک عضلات” پر مشتمل ہوتی ہے جن میں پھرتی، تیزی، چستی اور گیلا پن جیسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو اسے بے قابو کر دیتے ہیں۔
اگرچہ بعد میں اس کے سنگین سیاسی نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں۔ زبان کی طبی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پرانے وقتوں میں حکیم حضرات صرف زبان دیکھ کر بیماری کی تشخیص کیا کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی اب یہی طریقہ اپنانا پڑے گا۔ ایک "زبان سدھارو" کمیٹی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کی صدارت خود عمران خان کریں، پہلے پتہ لگایا جائے کہ کیا پارٹی اور حکومت کی زبان بدرنگی کا شکار ہے یا اس کا سائز بڑھ گیا ہے یا پھر زبان کے ذائقے میں کوئی فرق آ گیا ہے؟ یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ان سب زبانوں کے بے قابو ہونے اور پھسلنے سے اب تک کے پیدا شدہ حالات میں کیا ہیجان کی کیفیت ہے یا پریشانی اب زخم بن کر لگاتار درد کا باعث بن چکی ہے۔ یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ کیا زبان کے بے لحاظ استمال سے پارٹی کے مدافعتی نظام میں کمزوری ہو گئی ہے یا یہ کوئی وائرل یا جراثیمی بیماری ہے؟ طبی لحاظ سے پی ٹی آئی کی زبان سوجن کا شکار نہیں ورنہ اس کے بے قابو ہونے اور پھسلنے کے واقعات میں واضح کمی آتی۔ ظاہری علامات سے لگتا ہے کہ یہ زبان بدرنگی کا شکار ہے۔ سفید زبان طبی طور پر کالی زبان سے زیادہ بیمار تصور کی جاتی ہے تاہم سماجی روحانی اور سیاسی لحاظ سے کالی زبان زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ قیادت کو رنگ دیکھ کر آگے چلنا پڑے گا۔
حضرت علی کا قول ہے کہ ’’اصل انسان زبان کے پردے میں چھپا ہوتا ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں بے لگام انسان کو بولے گئے الفاظ کے تناظر میں سمجھا جاتا ہے نہ کہ حیوانی عمل کے وقوع پذیر ہونے سے۔
وزیراعظم عمران خان کو زبان کے استعمال کے خلاف ایک جنگ کرنے کی ضرورت ہے جس کا آغاز اپنی ذات، پارٹی اور کابینہ سے کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے اپنی کابینہ کو رمضان میں چُپ کا روزہ رکھنے کے احکامات جاری کریں اور ان پر اس وقت تک عمل جاری رکھیں جب تک دماغ، سوچ اور زبان کے ربط میں توازن کی مستقل حالت کابینہ میں برقرار نہ ہو جائے۔
حکومتی پارٹی کے صرف مسکراتے چہرے نظر آنے چاہئیں؛ ویسے بھی انسان اگر مسکرا رہا ہو تو زبان باہر نہیں نکالی جا سکتی۔ زبان باہر ہو تو سانس لینے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ طبعی سائنس کی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو اپنی صفوں میں صرف مسکراہٹیں بکھیرنے کی ضرورت ہے۔ جو بھی اچھا عمل اگر مستقبل قریب میں ہو گا تو وہ عوام کو نظر آ جائے گا۔ اسے زبان سے بتانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہو سکے تو صرف مسکراہٹوں پر ہی اکتفا کریں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ نہ صرف تمام سیاسی پارٹیوں کے گوشواروں میں “مادری زبان “ کا خانہ شامل کیا جائے بلکہ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دی گئی معلومات کو تاریخی پس منظر اور پارٹی کے حکومتی دور کی حقیقت پر ہر پانچ سال بعد پرکھا جائے اور پارٹی ریٹنگ کا نظام بھی متعارف کرایا جائے، اگر ہو سکے تو "صادق اور امین" کو شخصی سطح سے اٹھا کر پارٹی بنیادوں پر لاگو کیا جائے۔ اس سے نہ صرف زبان کے بے قابو ہونے یا پھسلنے کو روکا جا سکے گا بلکہ جمہوریت بھی مضبوط ہو گی۔