صحافیوں کے تحفظ کا بل: کیا پاکستانی صحافیوں کا مستقبل محفوظ ہے؟

صحافیوں کے تحفظ کا بل: کیا پاکستانی صحافیوں کا مستقبل محفوظ ہے؟
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی کابینہ نے صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے تحفظ کے لئے بنایا گیا بل تین سال بعد  ایک ایسے وقت میں منظور کیا  جب  ملک بھر میں صحافیوں اور میڈیا پروفیشلز کو قتل، دھمکیوں،  معاشی استحصال ، اغوا اور بہت سارے دیگر مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے اداروں سمیت یورپی  یونین نے پاکستان میں صحافیوں کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ملک میں صحافیوں کے تحفظ پر کام کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد کو صحافیوں کے لئے خطرناک قرار دیتے ہوئے اپنی  سالانہ رپورٹ میں  کہا ہے کہ مئی 2020 سے اپریل 2021 تک میڈیا اور صحافیوں پر حملوں اور آزادی اظہار کی خلاف ورزیوں کے کم از کم 148 کیسز سامنے آئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 40 فی صد زیادہ ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں صحافیوں  کی حالت زار پر یورپی یونین کا موقف بھی سامنے آیا  اور ادارے نے پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ برسوں میں میڈیا کی آزادی پر پابندیوں کا واضح منفی رجحان سامنے آیا ہے  اور اس سے بیرونی دنیا میں  پاکستان کے حوالے سے منفی تاثر جاتا ہے۔

انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے وفاقی کابینہ سے بل کی منظوری کے بعد کہا کہ وفاقی کابینہ نے صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کے بل اور جبری یا غیر قانونی طور پر گمشدگی (فوجداری قانون میں ترمیم) بل کی منظوری دے دی۔

صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کے لیے آزاد کمیشن تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا کوئی ایسا شخص ہوگا جو قانون، انصاف اور انسانی حقوق کے معاملات کی خاصی معلومات اور عملی تجربہ رکھتا ہو۔

بل کے نکات

مجوزہ قانون ’جبری یا رضاکارانہ گمشدگی، اغوا، قید یا دباؤ کے دیگر طریقوں‘ کے خلاف تحفظ کو یقینی بنائے گا اور ملک میں تنازع کا شکار علاقوں میں کسی دھمکی، ہراسانی یا حملے کے خوف کے بغیر صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کی ضمانت دے گا۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ ہر صحافی اور میڈیا ورکر کو آرٹیکل 9 میں دی گئی سیکیورٹی کا حق حاصل ہے، صحافیوں کو متنازع علاقوں میں کام کا حق حاصل ہے۔

بل کےمطابق صحافی کو کوئی ٹارگٹ یا ہراساں نہیں کر سکتا، صحافی سے اس کے ذرائع کا نہیں پوچھا جا سکتا، حکومت صحافیوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے گی۔

بل کے متن کے مطابق صحافیوں کے لیے جرنلسٹ ویلفیئر اسکیم شروع کی جائے گی اور ہر میڈیا مالک صحافیوں کے لیے تحریری صحافتی پالیسی اور پروٹیکشن دے گا۔

صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم کیا جائے گا،  اور اس کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس ، نیشنل پریس کلب، وزارتِ اطلاعات اور انسانی حقوق کے نمائندگان شامل ہونگے۔

صحافیوں کے تحفظ کے بل کے متن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیشن کسی حادثے کی صورت میں انکوائری کرے گا،کمیشن اپنی رپورٹ اور سزا تجویز کر کے حکومت کو دے گا۔



کیا اس بل سے صحافیوں کا تحفظ یقینی ہوجائے گا؟

جنگ زدہ علاقوں میں کام کرنے والے  والے سینئر صحافی اور فریڈم نیٹ ورک پاکستان کے بانی اقبال خٹک  سمجھتے ہے  کہ  اس بل کے منظوری سے یقیناً صحافیوں کی زندگیوں اور پیش وارانہ زمہ داریوں پر مثبت اثر پڑے گا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جو مطالبات ہم نے حکومت کے سامنے رکھے تھے وہ حکومت نے پورے کئے یا نہیں۔  اقبال خٹک کے مطابق  صحافیوں کے خلاف جرائم میں سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی تعیناتی ایک بڑا اور بنیادی مطالبہ تھا اور اب دیکھا جائے گا کہ کیا وہ مطالبہ پورا کیا گیا ہے کہ نہیں؟

اقبال خٹک بتاتے ہیں کہ ہم حکومت کی جانب سے اس بل کی منظوری پرہم صحافیوں کی جانب سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن قانون وہ کارآمد اور موثر ثابت ہوتا ہے جب ان کے  قواد اور ضوابط مضبوط ہوتے ہیں اور ملک بھر کے صحافیوں کو یہ قانون تب ہی قبول ہوگا جب  قانون میں وہ تمام مطالبات شامل ہوں جو ہم نے کئے ہیں۔

حکومت کی جانب سےاس قانون کو قومی اسمبلی کےآئندہ اجلاس میں بحث کے لئے پیش کیا جائے گا ، فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس قانون کے مسودے کو وفاقی کابینہ سے منظور کرنے کے لئے حکومت نے تین سال کا وقت لیا اب بہتری اسی میں ہے کہ اس قانون کو پارلیمان میں بحث و مباحثے کے لئے پیش کیا جائے اور صحافیوں سمیت میڈیا کے حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں سے مفصل رائے لے کر اس قانون کو قومی اسمبلی سے منظور کیا جائے ۔ لیکن  اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اس  کا مطلب یہی ہے کہ حکو مت  صحافیوں کے تحفظ بارے سنجیدہ نہیں اور صرف جان چھڑانے کے لئے ایک قانون منظور کیا۔ اقبال خٹک سمجھتے ہے کہ اگر صحافیوں سے اس قانون کے حوالے سے رائے لی گئی اور سپیشل پبلک پراسیکیوٹر کی تعیناتی اس بل کا حصہ تھا تو پھر مجھے یقین ہے کہ صحافی اس قانون سے بہت سارے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔

بین القوامی جرائد سے منسلک  صحافی اور محقق عون ساہی حکومت کی جانب سے منظور کردہ اس بل کو نیک شگون کے طور پر دیکھتے ہیں  اور سمجھتے ہے کہ حکومت کی جانب سے یہ بہت اچھی شروعات ہے اور اس بل  کی منظوری سے  صحافیوں کے لئے بتدریج بہتری آئی گی کیونکہ حکومت بھی سمجھتی ہے کہ بین القوامی ادارے پاکستان میں صحافت کو درپیش  خطرات کی نشاندہی کررہی ہے تو یقینا ملک میں صحافیوں کے لئے کوئی کام کرنا چاہیے۔

عون ساہی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس بل میں دیگر اہم شقیں بھی شامل ہے  جن  سےمستقبل میں صحافیوں کی زندگیوں کے تحفظ سمیت  دیگر مسائل کا حل بھی سامنے آئے گا ۔ آون ساہی کہتے ہے کہ  اس بل سے نہ صرف صحافیوں کے مسائل اور ان کے حل مین سٹریم ہونگے بلکہ اب صحافیوں کی آواز ملک کے بالادست ادارے پارلیمان میں سنی جائے گی۔عون ساہی بتاتے ہیں کہ جس طرح جنگ زدہ علاقوں میں صحافیوں کو جانے میں دقت سامنے آرہی تھی اب اس بل سے صحافیوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی کہ وہ ان علاقوں میں جائے اور وہاں سے رپورٹنگ کریں۔

میڈیا مالکان کا احتساب

اس بل میں میڈیا مالکان پر بھی زمہ داریاں ڈالی گئی ہے کہ وہ نہ صرف صحافیوں کو جدید تربیت دینگے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  نوکری کا لکھا ہوا معاہدہ بھی کرینگے۔ صحافی عون ساہی نے کہا کہ پاکستان میں اس سے پہلے کبھی بھی میڈیا مالکان کا احتساب نہیں ہوا اور یہ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ  مالکان پر بھی ذمہ داریاں ڈالی گئی۔ ساہی بتاتے ہیں میڈیا مالکان صحافیوں کو رپورٹنگ کے حوالے سے نہ تو جدید تربیت فراہم کرتے ہیں اور نہ ہی حفاظتی آلات اور یہ بھی اکثر اوقات صحافیوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوجاتاہے  لیکن اب میڈیا مالکان پر یہ زمہ داری عائد ہوگی کہ وہ نہ صرف ملازمین کو قوانین کے مطابق معاوضہ دینگے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو رپورٹنگ کی جدید تربیت اور حفاظتی آلات بھی فراہم کرینگے

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔