اس وقت ملک میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستانی فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہی اور نیوٹرل ہو چکی ہے۔ جنرل باجوہ نے امریکہ میں یہی بات کہی کہ فوج سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ مگر کیا فوج واقعی نیوٹرل ہو گئی ہے؟ صحافی اسد طور نے اپنے حالیہ پروگرام میں اسی سوال پر بحث کی ہے۔
یوٹیوب پر اپنے تازہ وی لاگ میں اسد طور کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت سے 6 ماہ تک گورنر سندھ تعینات نہیں ہو سکا حالانکہ ایم کیو ایم کی جانب سے نسرین جمیل کا نام تجویز کر دیا گیا تھا۔ اب اچانک کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ لگا دیا گیا ہے اور کامران ٹیسوری فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بندے ہیں۔ اب جہاں پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کامران ٹیسوری کو گورنر لگوا رہی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پہ لگوا رہی ہے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کیسے یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ نیوٹرل ہے؟ فوج یہ دعویٰ ہرگز نہیں کر سکتی کیونکہ فوج اس وقت نیوٹرل نہیں ہے۔
اسد طور نے بتایا کہ کامران ٹیسوری بنیادی طور پر سونے کے تاجر ہیں اور اس لحاظ سے خاصے امیر آدمی ہیں۔ پہلے وہ مسلم لیگ فنکشنل کا حصہ تھے۔ وہاں پر اے ٹی ایم شمار ہوتے تھے۔ پیرپگاڑا تو کھل کے اپنی جماعت کے بارے میں کہتے ہیں کہ میری پارٹی تو ہے ہی فوج کی جماعت۔ 2017 میں ایم کیو ایم میں ڈائریکٹ ڈپٹی کنوینر کے طور پر لانچ کیے گئے جب الطاف حسین کو ایم کیو ایم سے الگ کر دیا گیا تھا۔ 2018 میں انہیں سینیٹ کا ٹکٹ بھی دے دیا گیا۔ ان کی وجہ سے ایم کیو ایم میں پھوٹ پڑ گئی اور ایم پی ایز نے پیسے لے کے اپنا ووٹ بیچا۔ سینیٹ کے ان انتخابات میں یہ یقینی بنایا گیا کہ ایم کیو ایم کو ایک سیٹ ضرور ملے اور وہ سیٹ فروغ نسیم کی تھی۔ فروغ نسیم بھی فوج کے بندے تھے اور کامران ٹیسوری بھی مگر فروغ نسیم کو اس لئے جتوایا گیا کہ اگلے سیٹ اپ میں ان کا رول بہت اہم تھا۔ قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ہو، آرمی چیف کو توسیع دلوانی ہو یا ایف اے ٹی ایف کے نام پر متنازعہ قوانین بنوانے ہوں؛ 2018 سے 9 اپریل 2022 تک جہاں جہاں قانون سازی میں فوج کے فٹ پرنٹ نظر آتے ہیں تو یہ کام فروغ نسیم ہی کرتے رہے۔
کامران ٹیسوری بظاہر فاروق ستار کے ذریعے سے ایم کیو ایم میں آئے تھے۔ جب یہ الیکشن ہارے تو ایم کیو ایم میں یہ مطالبہ ابھرا کہ کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینر کی سیٹ سے ہٹایا جائے مگر فاروق ستار نہ مانے اور ایم کیو ایم سے الگ ہو گئے۔ انہوں نے ایم کیو ایم پاکستان بنا لی۔ 2018 کے جنرل الیکشن سے پہلے یہ دونوں دھڑے دوبارہ مل گئے اور انہوں نے مل کر الیکشن لڑا مگر انہیں پہلے والی کامیابی نہ مل سکی۔ 2018 کے جنرل الیکشن کے بعد کامران ٹیسوری صاحب ایم کیو ایم چھوڑ کر چلے گئے اور فاروق ستار نے دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان بنا لی۔ پچھلے 4 سال میں ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پاکستان کو ملوانے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں مگر فاروق ستار اس بات پر اڑے رہے کہ جب تک کامران ٹیسوری کو دوبارہ سے ڈپٹی کنوینر نہیں بنائیں گے میں اتحاد نہیں کروں گا۔ 4 سال ایم کیو ایم بہادر آباد فاروق ستار کی یہ شرط ماننے کو تیار نہیں ہوئی اور اب اچانک اسی ایم کیو ایم نے فاروق ستار کو بائی پاس کر کے کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ لگوا دیا ہے۔ شہباز شریف بھی 6 ماہ سے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہی رکے ہوئے تھے ورنہ وہ نسرین جمیل کو گورنر بنا چکے ہوتے۔
پاکستان کے بزنس مین فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کے رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا مفاد دیکھنا ہوتا ہے۔ عقیل کریم ڈھیڈی کو دیکھ لیں جو تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات میں فوج کی طرف سے پیش پیش تھے، ملک ریاض کو دیکھ لیں، کامران ٹیسوری بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سب فوج کے کہنے پہ سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ یہ بزنس مین بہت سے فوجی افسران پر بھی بڑی نوازشیں کرتے ہیں اور بدلے میں ان میں سے کسی کو ٹھیکے دلوائے جاتے ہیں، کسی کو سینیٹر بنوا دیا جاتا ہے اور کسی کو گورنر لگوا دیا جاتا ہے۔ یہ پوری انڈسٹری ہے۔