فیض حمید کے فوجی تحویل میں لیے جانے کے بعد سے ان کے خلاف آنے والی رپورٹس اور ان پر لگنے والے الزامات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
سینیئر صحافی ابصار عالم نے گذشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی کے 2018 میں ہوئے قتل کے ڈانڈے بھی جا کر سابق ISI سربراہ فیض حمید کے ماتحت ایک افسر سے جا کر ملتے ہیں۔ ابصار عالم کے اس بیان نے ایک بار پھر ملک میں تہلکہ مچا دیا ہے۔
اس سے قبل فیض حمید پر کچھ لوگوں کی جانب سے صحافی ارشد شریف مرحوم کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگتا رہا ہے لیکن علی رضا عابدی کے حوالے سے یہ انکشاف پہلی بار سامنے آیا ہے۔
سینیئر صحافی محمد بلال غوری کے مطابق ٹاپ سٹی کیس کے مالک عبدالمعیز کنور کا تعلق بھی حکومت کی ایک اتحادی جماعت MQM سے ہے اور 2017 میں جب ٹاپ سٹی کے خلاف آپریشن کیا گیا تو اس وقت بھی میڈیا میں یہی خبریں چلوائی گئی تھیں کہ اسلام آباد کی ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں MQM سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد چھپے بیٹھے ہیں اور ان کے خلاف سکیورٹی اداروں نے کارروائی کی ہے۔
اب مثال کے طور پر یہ خبر دیکھیں۔ مئی 2017 میں پاکستان کے ایک مؤقر جریدے The Nation میں چھپنے والی اس خبر کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے بیسیوں ملزمان کو گرفتار کر کے ان سے بہت بڑی مقدار میں اسلحہ بھی برآمد کر لیا ہے۔
دہشتگردی اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کا نام لے کر اپنے بھائی کے نام پراپرٹی ہتھیانے کی کوشش
اس خبر میں عبدالمعیز کنور کو ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک بتایا گیا ہے۔ آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ دراصل معیز کے تعلقات بانی MQM الطاف حسین کے ساتھ تھے اور ان کے گارڈ کراچی میں متعدد جرائم میں ملوث تھے۔ پھر کہا گیا کہ یہ شخص پیسہ الطاف حسین کو بھجوا رہا تھا۔ انٹیلیجنس ایجنسی کے ایک اہلکار نے The Nation کو بتایا تھا کہ یہ چھاپہ عبدالمعیز کنور کے الطاف حسین سے تعلقات ثابت ہونے کے بعد مارا گیا تھا۔
تاہم، خبر میں آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ یہ کارروائی جو کہ رینجرز کی جانب سے کی گئی تھی، اس کے حوالے سے رینجرز کراچی مکمل طور پر لاعلم تھی۔ مطلب یہ ملزمان جن کا تعلق کراچی میں جرائم سے جوڑا جا رہا تھا، ان کے خلاف بجائے اس کے کہ اطلاعات کراچی رینجرز کی جانب سے راولپنڈی پہنچائی جاتیں، کراچی کے رینجرز سربراہ کو اطلاع پنڈی سے جا رہی تھی کہ ہم نے بندے اٹھا لیے ہیں۔
دوسری جانب معیز کے ایک خاندان کے رکن نے اخبار کو بتایا تھا کہ اسے گھر سے اٹھایا گیا تھا، سوسائٹی سے نہیں۔ اور ساتھ اس کے سسر اور برادرِ نسبتی کو بھی اٹھا لے گئے تھے۔ یہ اطلاع بعد میں ابصار عالم نے اپنی خبر میں بھی دی تھی۔
کچھ عرصہ بعد البتہ انکشاف ہوا کہ یہ سب MQM کے خلاف آپریشن نہیں بلکہ جنرل فیض حمید کے ذاتی مقاصد کے خلاف بنائی گئی ایک کہانی تھی۔ ابصار عالم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ حبسِ بے جا میں عبدالمعیز کنور پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ جائیداد برطانیہ میں مقیم ایک خاتون اور نجف حمید کے نام کر دیں جو فیض حمید کے بھائی ہیں۔
'ٹاپ سٹی سکیم میں زیادہ سرمایہ کاری علی رضا عابدی کی تھی'
اب آتے ہیں علی رضا عابدی کے قتل کی جانب۔ تو جناب محمد بلال غوری کے مطابق سید علی رضا عابدی نے بھی ٹاپ سٹی سکیم میں سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ بلکہ زیادہ سرمایہ کاری ہی علی رضا عابدی کی تھی۔ عابدی چونکہ میڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھتے تھے، وہ کچھ اینکرز کو اس حوالے سے مسلسل آگاہ رکھے ہوئے تھے اور ان کے ذریعے ٹاپ سٹی اور عبدالمعیز کنور کے لئے آواز بھی اٹھا رہے تھے۔
علی رضا عابدی نے اپنے قتل سے کئی برس قبل 20 اگست 2013 کو ٹوئیٹ کی تھی جس میں وہ اسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک بار بی کیو پارٹی میں شریک تھے اور اس کی تصویر بھی انہوں نے ٹوئیٹ کی تھی۔
اس کے بعد مئی 2017 میں The Nation کی خبر آئی تو انہوں نے اس خبر کو ٹوئیٹ کیا اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان کے نوٹس میں لانے کے لئے ایک اور ٹوئیٹ کی جس میں انہوں نے اس پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والے اسلام آباد کے کاروباری افراد اور عام شہریوں کی توجہ بھی اس طرف دلائی۔
بلال غوری کا کہنا ہے کہ علی رضا عابدی کا راستے سے ہٹایا جانا فیض حمید کے لئے ضروری تھا کیونکہ اس کے ہوتے سوسائٹی پر قبضہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
کیا فیض حمید ایک evil genius تھا؟
علی رضا عابدی کو 25 دسمبر 2018 کو قتل کر دیا گیا۔ رواں برس اپریل میں ان کے قتل کے الزام میں 4 لوگوں کو عمر قید کی سزا بھی دے دی گئی۔ البتہ خبر کے مطابق ان لوگوں کو ایک شخص نے 8 لاکھ روپے کی سپاری دی تھی۔ اور یہ شخص کون تھا، آخر تک سامنے نہیں آیا۔
جنرل فیض حمید اس وقت فوج کی تحویل میں ہیں۔ ان پر اکرم شیخ کے گھر پر ڈکیتی کروانے کا بھی الزام ہے اور اکرم شیخ کے مطابق اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ان سے معافی بھی مانگی تھی۔
فیض حمید کے ساتھی انہیں evil genius کہا کرتے تھے۔ سمجھ سے البتہ باہر ہے کہ یہ کیسا genius ہے جس کے کرموں کے سراغ جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ ان پر لگنے والے الزامات میں رتی برابر بھی سچ ہے تو وہ کوئی ذہین، شاطر، چالاک مجرم تو نہ ہوا۔ یہ تو ایک مقتدر ادارے کو میسر بے حساب اسلحے، وسائل، لاکھوں سپاہیوں اور نظامِ انصاف کے لئے ناقابلِ گرفت اندھی طاقت کے خمار میں مبتلا ایک لاپروا اور صحیح، غلط جیسی معاشرتی و مذہبی اخلاقیات سے بے نیاز افسر ہوا جو اقتدار کے حصول کے لئے کسی بھی گہرائی میں اترنے کو تیار تھا۔ اور آج بھی وثوق سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ اپنے کیے کی سزا بھگتے گا یا اپنے ادارے کے ایک سیاسی دشمن کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر ثابت کر دے گا کہ ادارے کی طاقت اور اس کے افسران کے ناقابلِ محاسبہ ہونے کے حوالے سے اس کا تخمینہ بالکل درست تھا۔