Get Alerts

ہمارا تعلیمی نظام عملی زندگی کے تقاضوں سے کب ہم آہنگ ہو گا؟

یہ درحقیقت وہی زیور ہوتا ہے جسے اگر آرٹیفیشل زیور یعنی حقیقت کے برعکس کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہمیں پڑھایا کچھ جاتا ہے اور جب اس ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دینے کا وقت آتا ہے تو سب کچھ 360 ڈگری کے اینگل پر بدل جاتا ہے۔ تاریخ وہ رہتی ہے، نا وہ ضابطہ اخلاق اور نا ہی اس کی ویسی کوئی اہمیت رہتی ہے۔

ہمارا تعلیمی نظام عملی زندگی کے تقاضوں سے کب ہم آہنگ ہو گا؟

زمانہ طالب علمی میں جیسے ہی ہم نویں اور دسویں جماعت میں پہنچتے ہیں تو ہمیں ہمارے مستقبل کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔ سب کے الگ الگ شوق اور ارمان ہوتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو کوئی انجینیئر، کوئی وکالت کرنا چاہتا ہے تو کوئی سرکاری ملازمت کا خواہاں ہوتا ہے۔ کوئی پولیس میں جانا چاہتا ہے تو کوئی پائلٹ یا آرمی آفیسر بننا چاہتا ہے اور کچھ میرے جیسے صحافی بننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دن رات محنتیں کی جاتی ہیں۔ اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے کے بعد اپنے اپنے پسند کے شعبوں میں قدم رکھتے ہیں۔ اور پھر بس ان پر لکھی کتابیں حفظ کی جاتی ہیں اور اس سے متعلق ضابطہ اخلاق، اس کی اہمیت اور تاریخ پڑھا کر بچوں کو ایک لکھے لکھائے تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا ہے۔

یہ درحقیقت وہی زیور ہوتا ہے جسے اگر آرٹیفیشل زیور یعنی حقیقت کے برعکس کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہمیں پڑھایا کچھ جاتا ہے اور جب اس ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دینے کا وقت آتا ہے تو سب کچھ 360 ڈگری کے اینگل پر بدل جاتا ہے۔ تاریخ وہ رہتی ہے، نا وہ ضابطہ اخلاق اور نا ہی اس کی ویسی کوئی اہمیت رہتی ہے۔ پھر چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، انجینیئر ہوں، وکیل ہوں، پولیس والے ہو، سرکاری ملازم یا صحافی؛ کچھ بھی ویسا نہیں ہوتا جیسا ہمیں پڑھایا، سکھایا یا دکھایا جاتا ہے۔

دور کیوں جاتے ہیں، موجودہ حالات کے پیش نظر ہی دیکھ لیں۔ یہاں تو ڈاکٹر آئے روز ہڑتالوں پر مصروف ہوتے ہیں، کیا یہ ہڑتالیں بھی ان کے 5 سالہ تعلیمی نصاب کا حصہ رہی ہیں؟ اور اگر کبھی کسی ڈاکٹر سے غلطی ہو جائے، کوئی مریض مر جائے تو اس سے متعلق بھی کوئی ضابطہ اخلاق ان کے نصاب میں شامل ہے؟ ایسی ہی لمبی فہرست ہے ان کی، جس کا ذکر شاید نصاب میں تو نہیں لیکن پریکٹیکل لائف میں ضرور ہے۔

پھر آ جاتے ہیں انجینیئرز کی طرف۔ یہ بھی آج کل بس یہ دیکھتے ہیں کہ کب اور کہاں سے کتنا پیسا کھانا ہے، کہاں سے دونمبری کر کے اپنے پیشے کے ساتھ کھیلنا ہے، لیکن ہاں اس ملک کی معاشی ترقی میں اپنا کردار کیسے ادا کرنا ہے شاید ہی وہ احساس ذمہ داری انہیں آتا ہو۔

وکیلوں کو دیکھیں تو زیادہ تر کالے کوٹوں میں چھپے کالے بھیڑیے ہی آپ کو نظر آئیں گے جو ہمارے آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے، مظلوموں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے، یا پھر غنڈہ گردی کرتے اور اپنے پیشے کا غلط استعمال کرتے ہی نظر آئیں گے، کیونکہ یہ تو قانون کے رکھوالے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ ان پر کوئی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔

پولیس کی کارکردگی سے تو ہمارا بچہ بچہ واقف ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں ہی کئی معصوم بچوں کو سلاخوں کے پیچھے بھیجا گیا اور ان کی دہشت سے کئی معصوم پھول مرجھا گئے۔ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، تاریخ بھری پڑی ہے ایسے کئی ہولناک واقعات سے، جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہم ناجانے کون سے درس دیتے ہیں جو وردیوں میں محافظ کی بجائے جانور بن کر نکلتے ہیں۔

ایک ایسا ادارہ بھی ہے جس کا نام لینا بھی ہمارے لیے آج کل کسی جرم کیا، گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ انہیں پوری چھوٹ ہے، وہی تو سب کے باپ ہیں جن کے پاس سب کے باب ہیں اور وہی مسبب الاسباب ہیں۔ ہم کچھ کہیں گے تو پھر شکایت ہو گی۔ ہم شرمندہ ہیں، ہم صاحبِ زبان بے زبان ہیں۔ اس سے زیادہ ان کے بارے میں کچھ کہنا لکھنا مناسب نہیں۔

خیر مجھے دور طالب علمی میں صرف ایک ہی شوق ہوتا تھا کہ بس مجھے بھی کوئی کوٹ پہننا ہے، کیونکہ میں کوئی خاص پڑھاکو نہیں تھی اس لیے سفید کوٹ پہننے کا تو کبھی خواب دیکھا ہی نہیں، تو سوچا تھا چلو سفید نہیں تو کالا ہی صحیح۔ میری زبان درازی کی وجہ سے میرے گھر والوں کو بھی لگتا تھا کہ وکالت میرے لیے سب سے بہترین شعبہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے دور میں وکلا برادری کے حالات کچھ اچھے نہیں تھے جنہیں دیکھتے ہوئے گھروالوں نے بھی اپنا ارادہ بدل لیا۔ یوں ہمیں سفید کوٹ نصیب ہوا اور نا ہی کالا ہمارا مقدر بن سکا۔

پھر میں نے سوچ لیا کہ قینچی کی طرح چلنے والی اپنی زبان کا کچھ اچھا استعمال کر لیا جائے اور کوئی ایسا پیشہ اختیار کیا جائے جس میں، میں اپنے بولنے کی خاصیت کو مثبت انداز میں پیش کر سکوں۔ پھر میں صحافت کے پیشے سے منسلک ہو گئی جہاں مجھے اپنے الفاظ کو قلمبند کرنے کا ہنر بھی سکھایا گیا۔ لیکن یہاں بھی ہوا کچھ وہی جو باقی سب کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔ ہماری صحافت کی جو تاریخ پڑھائی گئی، جس جس صحافی کو رول ماڈل بنا کر صحافت کے چمکتے دمکتے تارے دکھائے گئے، درحقیقت وہ تو سب کے سب تاریخ رقم کرتے کرتے تاریکی میں کہیں کھو گئے۔ صحافت سے زرد صحافت، اور پھر اسی صحافت کو ہم نے سیاست کی نذر ہوتے دیکھا اور آہستہ آہستہ یہ پیشہ بھی دھندہ بن گیا۔ آج کل تو یہ پیشہ بھی کسی جرم سے کم نہیں۔ خدا گواہ ہے ہم نے ایسا کچھ نہیں پڑھا تھا جو ہم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

ہماری کل آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب کیا کریں گے؟ کس شعبے میں ترقی کے خواب دیکھیں گے؟ ہم نے تو ہر جگہ ایسی ایسی تاریخیں رقم کر رکھی ہیں کہ ہم انہیں 'سب اچھا ہے' کی کوئی نوید نہیں سنا سکتے۔ یہاں بہت سے لوگ مجھ سے اس بات پر اختلاف بھی کریں گے کہ ضروری نہیں سب کا ایک جیسا منفی تجربہ ہو۔ مان لیا پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں پھیر سکتے کہ 'ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے'۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ خدارا اس مچھلی کی نشان دہی کریں اور اپنے اپنے پیشے کو دھندہ بننے سے بچائیں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور ہم سب کو مل کر اپنے اپنے حصے کا اہم کردار ادا کرنا ہے۔