پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے 7 اکتوبر کو قلعہ سیف اللہ میں جمہوریت کے شہدا کی یاد میں منعقدہ عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ بھٹو کی تاریخ دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک فوج سیاست سے باہر نہیں نکلتی، پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور مستقبل کی غیر یقینی برقرار رہے گی۔ اچکزئی نے واضح کیا کہ وہ آئین میں ترامیم کے نام پر آئین پر شب خون مارنے کی مزاحمت کریں گے۔
یاد رہے 7 اکتوبر 1983 کو جب جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے تاریک دور میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے آئین اور جمہوریت کی بحالی کیلئے کوئٹہ میں محمود خان اچکزئی کی قیادت میں جلوس نکالا تو اس پر مارشل لاء احکام نے گولیاں برسا کر 4 کارکنان کو شہید، درجنوں کو زخمی کیا اور سینکڑوں کارکنان کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا۔
اچکزئی نے انکشاف کیا کہ تحریک انصاف کو اپنے اسیر بانی چیئرمین کی زندگی کے حوالے سے تشویش ہے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی بھٹو جیسی تاریخ نہ دہرائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی کا رابطہ باقی ملک سے منقطع رہا، جہاں کارکنان نے ریاستی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے اپنے قائد کی رہائی کے لیے سخت احتجاج کیا۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر عمران خان اور دیگر تمام سیاسی اسیران کو رہا کیا جائے، بصورت دیگر حالات خانہ جنگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اچکزئی نے کہا کہ وہ ان ججوں کے ساتھ ہیں جو آئین کے دفاع کے لیے کھڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے اکابرین اور پارٹی کی جانب سے جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا ذکر کیا۔
اچکزئی نے کہا کہ آئین اور جمہوری اصولوں کے مطابق ہر کسی کو سیاسی جماعت یا تنظیم بنانے، اجتماع، تقریر اور تحریر کی آزادی حاصل ہے، اس لیے پی ٹی ایم پر پابندی غیر آئینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل امریکہ آشیرباد سے فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ اچکزئی نے عالمی برادری خصوصاً مسلم امہ سے درخواست کی کہ وہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے فوری اقدام کرے اور دو ریاستی فارمولے کے تحت حل نکالے۔
انہوں نے 8 فروری کے انتخابات کی حقیقت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں بنائی گئی حکومت کے پاس کوئی آئینی یا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ مزید یہ کہ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کا منصب بھی 6 ارب روپے میں بکنے کی خبریں گردش کر رہی ہیں، جس کی صوبے کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ فنڈ کے غائب ہونے اور کوئٹہ شہر کی خوبصورتی پر 6 ارب خرچ کرنے سے تصدیق ہوتی ہے۔
اچکزئی نے کہا کہ ایک طرف سکیورٹی اور آپریشنز کے بہانے ہمارے وسائل پر قبضے جاری ہیں، جبکہ دوسری طرف کوئٹہ کے عوام کی اجتماعی ملکیت کی زمینوں کو بااثر افراد کے نام الاٹ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔
اچکزئی نے پختونوں کو متنبہ کیا کہ بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی حالات کا تقاضا ہے کہ اپنے وسائل اور جان و مال کے تحفظ کے لیے اتحاد و اتفاق پیدا کیا جائے۔ انہوں نے معمولی باتوں پر تنازعات سے بچنے اور مسائل کے حل کے لیے جرگوں کا سہارا لینے کی تجویز دی۔ اس ضمن میں انہوں نے نواب ایاز خان جوگیزئی اور دیگر مشران سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔
اجلاس میں پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے، جن میں جنرل سیکرٹری عبدالرحیم زیارت وال، مرکزی سیکرٹری نواب ایاز خان جوگیزئی اور ضلع قلعہ سیف اللہ کے صدر دارا خان جوگیزئی شامل ہیں۔ نواب ایاز خان جوگیزئی نے کہا کہ پہلے انتخابات کے نام پر صرف سلیکشن ہوتی تھی، مگر اس دفعہ آکشن ہوا ہے۔ انہوں نے صوبے اور خاص طور پر قلعہ سیف اللہ میں امن و امان کی صورت حال اور ریاستی اداروں کے کردار پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے عوامی جدوجہد کو آزادی کی ضمانت قرار دیا۔