Get Alerts

عمران خان بیٹھ کر بات کریں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں: رانا ثنا اللہ

عمران خان بیٹھ کر بات کریں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں: رانا ثنا اللہ
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اگر عمران خان نے یہی رویہ رکھا تو ہو سکتا ہے کہ 8 اکتوبر کو بھی انتخابات نہیں ہوں۔ اگر عمران خان کا رویہ مان لیا جائے تو کل کوئی بھی پارٹی اسمبلی تحلیل کر کے عام انتخابات کا مطالبہ کرے گی۔

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان بیٹھ کر سیاستدانوں کی طرح بات کریں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں۔ وہ بات کرتے تو کچھ نہ کچھ ہو جاتا۔ اگر عمران خان نے یہی رویہ رکھا تو ہو سکتا ہے کہ 8 اکتوبر کو بھی انتخابات نہ ہوں۔ اگر عمران خان کا رویہ مان لیا جائے تو کل کوئی بھی پارٹی اسمبلی تحلیل کر کے عام انتخابات کا مطالبہ کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو کہتے ہیں سپریم کورٹ پوری پارلیمنٹ کو بلا کر نااہل کر دے۔ اگر پارلیمنٹ نے انتخابات کے لیے پیسے دینے کا بل مسترد کر دیا تو فنڈز جاری نہیں ہوں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین کی وجہ سے آج عدلیہ اور پارلیمنٹ قائم ہے۔ سپریم کورٹ، دیگر اداروں میں بھی آئین کی گولڈن جوبلی تقریب ہونی چاہیے تھی۔ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے آئین کا تحفظ کرے۔ چیف جسٹس کےآئین کی گولڈن جوبلی تقریب میں نہ آنے پر دکھ ہے۔ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے آئین کا تحفظ کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپیکر اسمبلی کو چیف جسٹس سے بات کرنی چاہیے۔ جسٹس عمر عطا بندیال سے تصور نہیں کیا جا سکتا وہ ضد کی بات کریں گے۔ سب نے چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس سےفل کورٹ اجلاس بلانے کا بھی کہا گیا۔ وزیراعظم نےاٹارنی جنرل سے کہا ہماری کوئی ضدنہیں۔ اٹارنی جنرل نےچیف جسٹس کوپیغام دیا ہو گا۔

عدالتی اصلاحات بل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ صدر عدالتی اصلاحات بل سپریم کورٹ نہیں بھیج سکتے۔ عدالت عظمیٰ کو پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔سپریم کورٹ کے پاس اسٹرائیک ڈاؤن کا بھی اختیار نہیں۔ عدالت ایسا کرے گی تو آئین سے تجاوز ہو گا۔ آئین اور قانون پارلیمنٹ نے بنانا ہے۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس بل دوبارہ صدر کے پاس جائے گا۔

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ صدر نے 10 دن میں دستخط نہیں کئے تو 11 ویں دن وہ قانون بن جائے گا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے ثابت کیا "ون مین شو" نے ادارے کا بیڑہ غرق کیا۔ہم نے سپریم کورٹ کے اختیارات کم نہیں کی۔ ججز کے اختلافی نوٹ نے پارلیمنٹ کو سوچ دی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا پارلیمنٹ آنا اچھا فیصلہ تھا۔ آج تمام ججز کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھا۔