اے قائدِ جمہوریت، اے بنتِ نواز

اے قائدِ جمہوریت، اے بنتِ نواز

یادش بخیر! یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان کے المیہ جمہوری ڈرامے کی ایک پچھلی قسط میں نواز شریف کا رول عمران خان والا تھا۔ مہران بنک سکینڈل والی آئی جے آئی کا زور تھا اور قیادت اس کی نواز شریف کے ہاتھ میں تھی۔ آج کے عمران خان کی طرح اس دور میں نواز شریف بھی پکڑائی نہیں دیتے تھے اور بینظیر بھٹو کا مینڈیٹ چوری کرنے کے لئے ہر طرح کی پسِ پردہ سازش کی سرِ پردہ قیادت ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد جمہوریت کے جس نئے دور کا باب وا ہوا، نواز شریف اس کے ولن تھے۔ تمام تر دھونس دھاندلی کے باوجود بینظیر بھٹو اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئیں تو چند ہی مہینوں کے بعد ان کی حکومت کو رخصت کر دیا گیا۔ نواز شریف اس وقت بینظیر بھٹو کو "سیکیورٹی رسک" سمجھا کرتے تھے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چند روز پہلے تک وہ "مودی کے یار" تھے۔ اس زمانے میں نواز شریف کے سر پر وزیراعظم بننے کی دھن سوار تھی، بالکل اسی طرح جس طرح آج کل یہ دھن عمران خان کے سر پر سوار ہے۔ خیر 1990 کے انتخابات کے ذریعے نواز شریف کا آئی جے آئی کی حکومت کے ذریعے وزیر اعظم بننے کا دیرینہ خواب پورا کر دیا گیا۔



اے قائدِ جمہوریت، اے بنتِ ذوالفقار!


بینظیر نے ان انتخابات کو فراڈ الیکشن قرار دیا، وہ ان دنوں جمہوریت اور مزاحمت کا استعارہ تھیں، کرپشن کے ناسور نے شاید ابھی ان کا دامن داغدار نہیں کیا  تھا۔ وہ ایک زیرِ عتاب سیاستدان باپ کی مظلوم بیٹی تھیں۔ نواز شریف کی آئی جے آئی حکومت کے خلاف انہوں نے ملک گیر عوامی مظاہروں کا ارادہ کیا تو ہمارے دور افتادہ شہر میں بھی پی پی کا ایک جلسہ منعقد ہوا۔ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا لیکن اتنا یاد ہے پی پی کی تقریباً ساری قیادت وہاں پہنچی اور سٹیج سے کسی نے بڑے الحان سے ایک نظم پڑھی، نہ نظم پڑھنے والے کا نام یاد ہے اور نہ ہی اس کے سارے شعر۔ اب بھی کافی تحقیق کی لیکن اس کا سراغ نہیں مل سکا۔ بس اتنا یاد ہے کہ وہ بہت خوبصورت نظم تھی اور جس جوش اور ترنم کے ساتھ اس شاعر نے وہ نظم پڑھی مجمع پر سحر طاری ہو گیا۔ اس نظم کا پہلا مصرع تھا،


اے قائدِ جمہوریت، اے بنتِ ذوالفقار!



جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے


ہمارے ذہن میں جمہوریت کے جو اول اوائل بیج بوئے گئے اس طرح کے واقعات کا ان میں اہم کردار ہے۔ خیر نواز شریف نے ریاستی جبر کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کے لئے کیے جانے والے ان مظاہروں کو دبا دیا۔


پچھلے ایک دو سال کے واقعات پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس المیہ جمہوری ڈرامے کی نئی قسط میں صرف عمران خان نے ہی نواز شریف کا رول نہیں اُچک لیا بلکہ مریم نواز نے بھی بینظیر کے کردار کو گلے لگا لیا ہے۔ نئی قسط میں وہ جمہوریت اور مزاحمت کے استعارے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ جس بہادری اور جرات کےساتھ اس نے جیل کی سلاخوں کو گلے لگایا ہے اس بارے میں فیض کا بہت مشہور مصرع یاد آ جاتا ہے


جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے



جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے پیچھے چھپے قانونِ قدرت کی جامعیت پر غور فرما لیجئے گا، افاقہ ہو گا



قرائن بتا رہے ہیں کہ نوے کی دہائی کا ایکشن ری پلے ہونے جا رہا ہے۔ جمہوریت کی مشعل اس دوڑ میں بہر حال مریم نواز کے ہاتھ میں ہی رہے گی۔


یہاں ایک سوال ذہن میں یہ ابھرتا ہے کہ دنیا آگے جا رہی ہے لیکن ہمارے ہاں 2018 میں 1990 کی فلم کیسے چل رہی ہے؟ اس کا جواب ہمیں شاید نوم چومسکی کی کتاب میں تلاش کرنا پڑے گا ، جسکا عنوان ہے Manufacturing Consent: The Political Economy Of The Mass Media.


اگر پوری طرح سمجھ نہ آئے تو مزید تحقیق کے لئے جسٹس منیر کے نظریہ ضرورت کو سمجھنے کے لئے کوئی اچھی سے کتاب خود ڈھونڈ لیجئے۔ اور پھر بھی کہیں کہیں خالی جگہ پُر کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو اردو محاورے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے پیچھے چھپے قانونِ قدرت کی جامعیت پر غور فرما لیجئے گا، افاقہ ہو گا۔


خیر جو ہوا سو ہوا، عوام واقعتاً تبدیلی کی امید لگائے بیٹھی ہے۔ میں انتخابات کے بعد جتنے بھی لوگوں سے ملا سب کے سب تبدیلی کا چورن چباتے ہوئے نظر آئے اور اب وہ اتنی ہی شدت سے تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں جتنی شدت سے منٹو کے افسانے "نیا قانون" کے کردار منگو کوچوان نے اپنے تانگے کی انگریز سواری پر گھونسے برسائے تھے۔



ڈیم بنانے کا جو نیا طریقہ ایجاد کیا ہے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے


تبدیلی اگر کہنے سے آ سکتی تو ہم کب سے دنیا کی سپر پاور بن چکے ہوتے۔ لیکن افسوس کہ عملی زندگی میں کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ملکی مسائل اور چیلنجز بہت گھمبیر ہیں اور ہم بغیر اپنے طور طریقے بدلے، انہی پرانے اور گھسے پٹے کھیل تماشوں سے تبدیلی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت پانی کے سنگین ترین بحران کا سامنا ہے اور ہم نے ڈیم بنانے کا جو نیا طریقہ ایجاد کیا ہے اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ آبادی کا ایٹم بم، نا خواندگی، اور صحت کی سہولتوں کا بحران پھن پھیلائے کھڑا ہے اور ہماری تبدیلی نے جس طرح ان مسائل کو میڈیا کے اینکروں کے ذریعے حل کرنے کا حل نکالا ہے اس کا انجام بھی معلوم ہے۔ خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی پالیسی نے جس طرح ہمیں دنیا بھر میں تنہا کر کے ہماری معیشت کو جس نہج پر لا کر کھڑا کر دیا ہے اس کی تبدیلی کے جو امکانات ہیں ان  کا سوچ کر بھی جھرجھری آ جاتی ہے۔ بھارت کی طرف سے ہمیں بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ اور اس وقت حالت یہ ہے کہ بھارت دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چکا ہے اور ہم زندہ رہنے کے لئے ایک دفعہ پھر چین اور آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی تبدیلی کاسوچ رہے ہیں۔ تبدیلی لاتے لاتے ہم نے مرکز گریز قوم پرست تحریکوں کو جس تیزی سے قومی دھارے سے باہر دھکیل دیا ہے اور جس قسم کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں، سنجیدہ حلقوں میں اس پر بہت تشویش پیدا ہو گئی ہے۔



ہماری آسیب زدہ جمہوریت کو بچانے کے لئے ہمیشہ خواتین سامنے آئیں


میری دلی خواہش ہے کہ اس المیہ جمہوری ڈارمے کی یہ قسط ایک طربیہ انداز میں اختتام پذیر ہو لیکن جو حالات و واقعات ہیں وہ اس خدشے کو انگیخت دیتے ہیں کہ


ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے


ہم جتنی مرضی فلمیں چلا لیں اور جتنے مرضی ڈرامے رچا لیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ایک حقیقی اور مضبوط جمہوری طرزِحکومت ہی ہمیں ان مسائل سے نکال سکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری جمہوریت پر آسیب کا سایہ ہے۔ بچوں کی کہانیوں میں جس ملک پر آسیب کا سایہ ہوتا تھا تو ایک حسین و جمیل، وجیہہ اور تنومند شہزادہ بچانے آتا تھا۔ لیکن ہماری آسیب زدہ جمہوریت کو بچانے کے لئے ہمیشہ خواتین سامنے آئیں۔ فاطمہ جناح، نصرت بھٹو، بینظیر بھٹو، کلثوم نواز، عاصمہ جہانگیر اور اب جس خاتون سے ساری امیدیں  بندھی ہیں اس کے لئے 1992 میں نواز شریف کے خلاف بینظیر بھٹو کے ایجی ٹیشن میں سنی وہ نظم تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ذہن میں گونج رہی ہے


اے قائد جمہوریت، اے بنتِ نواز!