گوادر: 'یہ صرف ایک ریلی نہیں بلکہ نام نہاد ترقی کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے'

گوادر: 'یہ صرف ایک ریلی نہیں بلکہ نام نہاد ترقی کے خلاف ایک ریفرنڈم ہے'
10دسمبر کو عالمی انسانی حقوق کی مناسبت سے گوادر میں جاری عوامی تحریک کا دھرنہ 26 ویں دن میں احتجاجی ریلی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ یہ اس تحریک کی چوتھی ریلی ہے۔ اس سے پہلے کفن پوش ریلی، بچوں کی ریلی اور خواتین کی بھی ریلیاں نکالی گئی ہیں۔ یہ ریلی جاوید کمپلیکس سے شروع ہوئی اور گوادر میرین ڈرائیو سے گزرتی ہوئی شہید لالا حمید چوک پر دھرنے کی مقام پر واپس دھرنے میں تبدیل ہوئی۔



انسانی حقوق کے دن یہ پورے ملک میں ہونے والی سب سے بڑی ریلی ہونے کے باوجود مین اسٹریم میڈیا میں نہیں چلائی جاسکی۔ گوادر عوامی تحریک " بلوچستان کو حق دو تحریک" کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ریاست سے کہا کہ یہ انسانوں کا سمندر آج اپنے بنیادی حقوق مانگ رہا ہے، یہ لوگ عزت چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں روزگار کمانے کا بنیادی حق دیا جائے۔ انھوں نے کہا "ہماری مائیں اور بہنیں آج ریاستی مظالم کے خلاف نکلی ہیں، ہمارے مرد پچھلے 26 دنوں سے کھلے آسمان تلے دھرنے پر بیھٹے ہیں۔ کیا ہم دہشت گرد ہیں؟"۔



گزشتہ دنوں عوامی تحریک سے اظہار ہمدردی کرنے عوامی ورکر پارٹی کے بزرگ بلوچ رہنما یوسف مستی خان آئے تھے جن پر غداری کا پرچہ کاٹ کر گرفتار کرلیا گیا۔ 9 دسمبر کو فورسز کی بھاری نفری نے دھرنے کے مقام کو گھیرے میں رکھا اور وہ مولانا ہدایت الرحمٰن کو بھی غداری کے الزام میں گرفتار کرنے آئے تھے۔ اس موقع پر پہلی دفعہ خواتین نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں گھروں سے نکل کر رات گئے تک دھرنہ دیا۔ خوتین کی سربراہی ماسی زینب نے کی۔ ماسی زینب جب بستر سمیت رات کو دھرنے کی مقام پر پہنچیں تو مظاہرین کا جذبہ مزید بڑھ گیا۔



دس دسمبر کو احتجاجی ریلی میں شرکت کے لیے گوادر کے علاوہ مکران، بلوچستان اور کرچی سے بھی لوگوں کے بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یہ ریلی جب "پدی زِر" کی ساحل کے قریب پہنچی تو اس کی تصاویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن پر عنوان دیا گیا تھا کہ ایک طرف بحرہ بلوچ اور دوسری طرف مظلوم بلوچ۔

جمعہ کی نماز کے بعد دھرنے کے مرد شرکاء جاوید کمپلیکس پہنچے جہاں سے ریلی شروع ہونا تھی تو خواتین مختلف محلوں اور مضافاتی علاقوں سے قافلوں کی شکل میں دھرنہ گاہ کی حفاظت کے لیے پہنچے۔ اس احتجاجی ریلی کو انسانی حقوق کے دن ہونے والی نہ صرف ملک کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا جارہا ہے بلکہ بلوچستان کی تاریخ کی بھی سب سے بڑی ریلی مانا جارہا ہے۔ گوادر کے سینئر صحافی نور محسن کے مطابق انھوں نے اپنی زندگی میں اتنی بڑی ریلی بلوچستان میں کبھی بھی کور نہیں کی۔ ان کے مطابق مرد و خواتین کی یہ تعداد لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔



فاطمہ رضا ایک طالبہ ہیں۔ انھوں نے اس احتجاج میں شرکت کی کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ انسانی حقوق کے عالمی دن پر وہ دنیا کو دکھانا چاہتی ہے کہ بلوچوں پر ترقی کے نام پر کتنا بڑا ظلم کیا جارہا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ"ہم تنگ آ چکے ہیں اس لیے ہم باہر سڑکوں پر آئے ہیں، ہماری عزت نفس کا مسئلہ ہے۔ ہمیں روزگار کمانے کا حق نہیں دیا جاتا، ہمارے ابو اور بھائی یہاں پرامن احتجاج پر بیھٹے ہیں تو ان کو گرفتار کرنے کے لیے فورسز بلائی جاتی ہیں اگر حق مانگنا جرم ہے تو وہ مجرم ہیں"۔



شمس الدین بلوچ ایک ماہی گیر ہیں وہ بھی مجبور ہوکر احتجاج کرنے نکلے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ظلم کب تک چلے گا؟ کب تک لوگوں کو اٹھاکر لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا؟ سمندری ڈاکوؤں کے خلاف وہ احتجاج کر رہے ہیں۔ اسی طرح احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کے لیے عبدلغنی زامرانی ضلع کیچ بلیدہ سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اسی لیے اس احتجاجی ریلی میں شرکت کرنے کے لیے آئے ہیں کیونکہ وہ اپنے لیے آئینی و قانونی انسانی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں "ہم بھی انسان ہیں۔ آج یہ ایک ریلی نہیں تھی بلکہ نام نہاد ترقی کے خلاف ایک ریفرنڈم تھا جس ترقی کے آڑ میں ہم پر کتنا ظلم کیا جارہا ہے۔ ہمیں بنیادی انسانی حقوق چاہیئں" وہ کہتے ہیں کہ ریاست کو اس یہ پیغام ملنا چاہیے کہ وہ مزید انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے ورنہ یہ ریفرنڈم کسی اور ریفرنڈم میں نہ بدل جائے۔

گودار میں جاری عوامی تحریک کا دھرنہ اب بھی جاری ہے بلکہ اب یہ پورے بلوچستان میں پھیلتا جارہا ہے۔ ریاستی میڈیا اب بھی اس سے نظر انداز کیے ہوئے ہے۔حکومت بلوچستان مطالبات کو آئینی و قانونی تو قرار دیتی ہے لیکن اب تک عمل در آمد نہیں کرسکی اور بجائے عمل در آمد کرنے کے فورسز اور پانچ ہزار پانچ سو پولیس گوادر میں لاکر عوام کو اشتعال دینا چاہتی ہے جو یقیناً اس پرامن تحریک کو مشتعل کرنے کے مترادف ہوگا۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔