فارن فنڈنگ کیس : پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور اہم ثبوت سامنے آ گیا!

فارن فنڈنگ کیس : پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور اہم ثبوت سامنے آ گیا!
پاکستان تحریکِ اِنصاف کی ایک اہم دستاویز منظر عام پر آئی ہے، جس کے مطابق اِس پارٹی کے ملازمین ٹیلی فون آپریٹر طاہر اقبال، کمپیوٹر آپریٹر محمد نعمان افضل، اکاؤنٹنٹ محمد ارشد اور پی ٹی آئی کے دفتر کے ہیلپر محمد رفیق کے ذاتی بنک اکاؤنٹس کو پارٹی کے لیے عطیات وصول کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری خزانہ اور مشیر مالیات سراج احمد نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ پارٹی کے مالیاتی بورڈ کی جانب سے ان چاروں ملازمین کو اجازت دی گئی تھی۔

قانونی ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کے خلاف فارن فنڈنگ کیس سے متعلق یہ ثبوت انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جو پی ٹی آئی کو بین کرانے کے لیے اکیلا ہی کافی ہے۔

یہ واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کے قواعد 2002 کے آرٹیکل 4 کی یہ صریح خلاف ورزی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت فرنٹاکاؤنٹس کے ذریعے اپنے لیے فنڈز وصول کرے۔ مزید برآں، اِنتخابی قوانین کے مطابق سیاسی جماعتیں غیر ملکی شہریوں سے فنڈز حاصل نہیں کر سکتیں۔

عمران خان فارن فنڈنگ کیس کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہیں، اس لیے 2014ء سے یہ موصوف اس کیس سے مکمل جان چھڑانے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی گمراہ کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔

یاد رہے کہ 20 جنوری 2021ء کو عمران خان نے ایک لمبی ڈینگ فرما دی تھی کہ فارن فنڈنگ کیس کی اوپن کورٹ سماعت کی جائے کیونکہ پی ٹی آئی کی تمام فنڈنگ قانونی اور ریکارڈ پر ہے۔ اس کے بعد ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ موصوف مسلسل ڈینگتے رہے کہ اگر مجھے خوف ہوتا تو سکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کی اوپن سماعت کا نہ کہتا۔ہمارے پاس 40 ہزار ڈونرز کے ناموں کی فہرست کے ساتھ ساتھ 23 بینک اکاؤنٹس کی مکمل تفصیلات موجود ہیں۔ مخالفین آ جائیں، فارن فنڈنگ کیس ٹی وی پر براہ راست دکھایا جائے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اور ساری قوم کو پتہ لگ جائے گا کہ کس نے کہاں سے فنڈ لیا ہے۔

لیکن جب پی ٹی آئی کے بانی رُکن اکبر ایس بابر کی طرف سے الیکشن کمیشن میں درخواست آئی کہ پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگز کے تمام شواہد فراہم کیے جائیں تو عمران خان نے اپنی پارٹی کے وکیل شاہ خاور کے پیچھے چھُپ کر درخواست جمع کروا دی کہ سکروٹنی کمیٹی کی کاروائی قطعاًاوپن نہ کی جائے۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ اس کیس کے سلسلے میں پی ٹی آئی ایک بار سپریم کورٹ آف پاکستان میں امریکہ سے موصول فنڈنگ کی دستاویزات پیش کر چکی ہے۔ جب ان دستاویزات کی جانچ پڑتال ہوئی تو معلوم ہوا کہ غیر ملکی شہریوں کے ناموں کی جگہ اِنتہائی بھونڈے طریقے سےپاکستانی شہریوں کے نام کاپی پیسٹ کر کے بار باردہرائےگئے تھے۔ اس پر بے ضمیر بابے رحمتے نے خالی پیلی برہم ہوتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھا تھا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ عدالت میں جعلی دستاویزات پیش کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟ پی ٹی آئی کے وکیل  نے نہ صرف معذرت کی بلکہ یہ بھی اِقرار کیا کہ انہیں یہ کاغذات کلائنٹ نے دیئے تھے۔

 

حال ہی میں پی ٹی آئی تسلیم کر چکی ہے کہ اُنھیں غیر قانونی فنڈنگ ہوئی ہے لیکن ساتھ میں چالاکی فرماتے ہوئے اپنی سٹیٹمنٹ میں یہ پخ لگا دی کہ غیر قانونی فنڈنگ کی ساری ذمہ داری امریکی ایجنٹوں کی ہے، جنھوں نے پارٹی کے چئیرمین (عمران خان یعنی کیس کے مرکزی فریق) کو بتائے بغیر ایسا کیا۔ حالانکہ حقائق یہ ہیں کہ "صادق و امین" کے دستخطوں سے ہی دو امریکی آف شور کمپنیاں وجود میں آئیں تھیں اور ان کے ذریعے پارٹی کو فنڈنگ ہوئی ہے۔

یہاں یہ باور کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ کیس بیک وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان، اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت رہا ہے اور عمران خان واضح ثبوتوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ہونے کی وجہ سے سزا سے مسلسل بچتے چلے آ رہے ہیں۔

"صادق و امین" عمران خان فارن فنڈنگ کیس میں 30 بار سٹے آرڈر لینے کے ساتھ ساتھ سات رِٹپٹیشنز دائر کر چکے ہیں کہ اُن کے خلاف تحقیقات نہ کی جائیں، وہ الیکشن کمیشن میں بار بار فریادیں بھی کر چکے ہیں کہ اُن کے 23 بنک اکاؤنٹس ظاہر نہ کیے جائیں اور وہ عام شہری کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔

ہم ایک پھر عرض کریں گے کہ اب یہ بات کنفرم ہے کہ اگر لاڈلے کو بچانے کے لیے ایک بار انصاف کا قتل نہ کیا گیا تو اس کیس میں ڈھونگی "صادق و امین" سزا و جرمانے کے ساتھ تاحیات نااہلی اور سیاسی موت سے کسی صورت میں نہیں بچ سکے گا۔