ٹک ٹاک کا پاکستان سے الودع

ٹک ٹاک کا پاکستان سے الودع
2017 کے سرد دن و راتوں میں، نومبر کے مہینے میں ٹک ٹاک کی بیماری دھیرے دھیرے ہمارے پیارے ملک کے آنے والی نسلوں کو کھاتی جا رہی تھی۔
ویسے تو یہ ایپلیکیشن 2012 میں سامنے آئی تھی۔ مگر پانچ سالوں بعد پاکستان میں اس نے تیزی سے اپنا مقام بنا ڈالا۔

ہر ایجاد کے بے شمار فوائد بھی ہوتے ہیں اور ساتھ میں نقصانات بھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مجھے اس ایپلیکیشن کے کوئی خاص فوائد بہت ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آئے۔ بلکہ ہماری نسل جن کو یا تو تعلیماتی اداروں میں مختلف سرگرمیاں کرتے انعامات وصول کرتے نظر آنا چاہیے تھا یا دیگر اداروں میں کام کرتے اپنا نام روشن کر کے کامیابی وصول کرنی چاہیے تھی، مگر یہاں تو نظارہ ہی کچھ اور نظر آ رہا تھا۔ پیارے پاکستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تو بس اس ایپ کے ذریعے اداکاروں کی نقل کرتے، مشہور گانوں پر ہاتھ چلاتے، اور کچھ نخرے ناز دیکھا کر مشہور ہونا تھا۔ یوں مقبولیت حاصل کر کے انہیں سیلیبرٹی بننا تھا۔ اور حیرت کی بات یہ کہ یوں کچھ نوجوان مشہور ہونے کا مزہ بھی چکھ چکے ہیں۔



مگر ایک سوال پریشان کر رہا تھا کہ اب ان کا کیا ہوگا جنہوں نے بڑی محنت کر کے مقبولیت حاصل کی ہے؟ کیوں کہ ٹک ٹاک تو بند ہونے جا رہا ہے۔ مگر اس کی محنت کا کیا جس کی فریاد بڑی مشکلات سے وزیر اعظم تک پہنچی تھی؟ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں رہنے والے اس عظیم کی شان ہے جس کا ایک قدم اس بیماری سے نجات دینے میں بالآخر ساتھ دے رہا ہے۔

اس عظیم شخص کو (جس کی فریاد سٹیشن پورٹل پاکستان کے ذریعے آواز بنی) وزیر اعظم کو اور پاکستان ٹیلی مواصلات اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ان ماؤں کی کتنی دعائیں ملتی ہوں گی جو اپنے بچوں کو کتاب میں جھونکنے کے بجائے ہاتھ چلاتے اور منہ بناتے اپنی موبائل کی فرنٹ کیمرا میں مصروف دیکھ کر دل میں چلاتی ہونگی۔ اور ان کے دلوں میں بھی ٹھنڈک پڑی ہوگی جو دوسروں کی کامیابی پر اپنا دل چلاتے تھے۔



ویسے تو دیگر سوشل ایپس جیسے فیس بک، ٹویٹر وغیرہ بھی مضر ہیں مگر ان کے فوائد اور ضرورت بھی ہمیں نظر آتی ہے۔ مگر ٹک ٹاک کی بیماری جیسے جیسے پاکستان میں اپنا گھر کر رہی تھی وہ بہت بری علامت کی نشاندہی تھی۔

جنوری 10، 2019 بھی تاریخ میں لکھی جائے گی کیونکہ ٹک ٹاک کی بیماری کا خاتمہ ہماری نوجوان نسل، خاص کر گیارہ بارہ برس کے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے اشد ضروری بن گیا تھا۔

عروسہ ایمان ایل ایل بی کی شاگر کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اپنے احساسات و جذبات کو الفاظوں میں قید کرنے کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں بڑھتے تنازعہ اور مرد و خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ایک بہت سی چھوٹی کوشش ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ کچھ نا کر سکو تو دل میں ہی بری چیز اور کسی برے عمل کو برا کہو۔ تو بس یہ الفاظوں کی جنگ کا یہی مقصد ہے۔