ایک دن سب نے جانا ہے

ایک دن سب نے جانا ہے
معاف کیجئے گا اگر آج ہمارا لہجہ ذرا جارحانہ لگے۔ یوں تو ہم نے ہمیشہ یہی کوشش کی ہے کہ بات جتنی بھی کڑوی ہو شیرینی میں لپیٹ کر ہی کی جائے لیکن آج جذبات حاوی ہونے کی ٹھانے بیٹھے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ یہی کہا گیا کہ اپنی تحریر میں احتیاط برتیں لیکن آج مشکل ہو گا۔

عدلیہ سے عدل کی اپیل ہے:

عدلیہ ہمارے ملک کا اہم ستون ہے۔ کہا جاتا ہے کہ معاشرہ ظلم پر تو قائم رہ سکتا ہے عدل کے بغیر نہیں۔ یہاں تو خیر ظلم کی بھی افراط ہے اور انصاف بھی عنقا۔ ہمارے فاضل چیف جسٹس صاحب اس اہم ستون کے بھی سب سے اہم ستون ہیں۔ جب سے اقتدار، اوہ معاف کیجئے گا عہدہ سنبھالا ہے گلشن کے تحفظ کی قسم ٹھانے ہوئے ہیں۔



کبھی کسی ہسپتال میں جاتے ہیں تو کبھی کسی یونیورسٹی کا دورہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی خدمت کے کئے آنے والے اعلی پروفیشنلز پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی تنخواہوں کا یہ ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔عدالتوں کا دورہ جب ہی کرتے ہیں جب کوئی جج موبائل پر پایا جائے۔ جی وٹس ایپ کا استعمال انہی کو جائز ہے۔ عدالتوں میں 30 لاکھ سے زائد کیس التوا کا شکار ہیں لیکن کوئی ٹینشن نہیں۔ بس سیاستدانوں کو ٹھکانے لگایا جائے۔ وہ بھی ایک مخصوص پارٹی۔

ایک دن سب نے چلے جانا ہے:

ابھی 5 جون کو چیف جسٹس صاحب کا بیان نظروں سے گزرا جس میں انہوں نے انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں کی سیکورٹی اور بلٹ پروف گاڑیاں کے استعمال کے خلاف سخت نوٹس لیا۔ یہاں تک کہا کہ شدت پسند حملوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک دن سب نے چلے جانا ہے۔ واقعی ہوتا تو کچھ نہیں۔ بس جانیں جاتی ہیں۔ لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہونے والا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ واقعی ہوتا تو کچھ نہیں۔ ایک دن سب نے چلے جانا ہے۔



کبھی بینظیر، کبھی بشیر بلور اور کبھی ہارون بلور :

ایک ایک کر کے وہ ایک دن آتا جاتا ہے۔ کبھی بینظیر بھٹو ایک اندھی گولی کا نشانہ بن کر چلی جاتی ہیں تو کبھی بشیر بلور ایک خودکش حملہ آور کے ہاتھوں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اگلے ہی الیکشن میں انہی بشیر بلور کے بیٹے اور ممتاز قانون دان ہارون بلور بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔



سوموار کو سینٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے امور داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے نیشنل کاونٹر ٹیررزم اتھارٹی کے ڈائریکٹر عبید اللہ فاروق نے بتایا کہ عمران خان، اسفند یار ولی ، امیر حیدر خان ہوتی، آفتاب احمد خان شیر پاو، اکرم خان درانی، ارم خان درانی اور طلحہ سعید کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت بھی دہشتگردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ ان کا خاص نشانہ الیکشن کمپین اور سیاسی میٹنگز ہیں۔

سیاست دانوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہو گا:

اب خدا جانے ہمیں اس ایک دن کا انتظار کرنا یے جب سب نے جانا ہے یا سیاستدانوں کی سیکورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ خیبر پختونخواہ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جتنی جانیں کھوئی ہیں وہ کسی نے نہیں۔ بھلے وہ پاک فوج کے جوان ہوں یا ان کے بچے، لیڈر ہوں یا عام عوام، پشتونوں کو بہادر کہہ کر جو کھوکھلا دلاسہ دیا جاتا ہے وہ کافی نہیں۔

مانا کہ ایک لیڈر کو نڈر اور بے باک ہونا چاہئیے لیکن انسانی جان کی قیمت کوئی تمغہ ادا نہیں کر سکتا۔ عوام کو بھی یہ بات جاننی ہو گی کہ سیاستدانوں کو اس بات پر نشانہ نہ بنایا جائے کہ انہیں سیکورٹی درکار ہے۔ یہ ملک نہ تو مزید جانیں کھو سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی خلا کے بڑھتے شگاف کا متحمل ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس صاحب اور الیکشن کمیشن پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ سیاستدانوں کی الیکشن کے دوران سیکورٹی کو یقینی بنایا جائے۔

دشمن کا ہاتھی مر کر بھی سوا لاکھ کا ہے۔ دہشتگردوں کی ٹوٹی کمر بھی خود کش دھماکوں کے قابل ہے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ اس 'ایک دن' کو روکنا ہو گا۔ اب ہماری بس ہو گئی ہے۔ مزید بہادری نہیں دکھائی جاتی۔