تحریر: (سنجئہ متھرانی) جہاں تک مجھے یاد ہے ہم ریلی کی صورت میں صرف آزادی کا جشن منانے کے لیے باہر نکلا کرتے تھے، اس ک علاوہ ہم مڈل کلاس لوگ جس میں اقلیت اور اکثریت دونوں کی تعداد یکساں ہے۔ ہم مکمل طور پر بے خبر تھے کہ یہ پریس کلب کیا ہوتے ہیں۔ دھرنے کے اوقات کیا ہیں، کتنی زبانوں میں پریس ریلیز لکھی جاتی ہیں، کن صحافیوں کو کل کی اخبارات میں خبر چھپوانے کے لیے کتنے پیسے دیے جاتے ہیں اور بہت کچھ..!!! جن کا ذکر کروں گا تو زیادہ نہیں کم از کم آنکھیں تو نم ہو ہی جائیں گی کیونکہ جب اک صحافی بھی اندر سے مذہبی ہو، اقلیتی برادریوں کی ریلیوں کو کوریج دینے سے گریز کرتا ہو، ان کے دھرنوں میں اخلاقی شمولیت سے پرہیز کرتا ہو اور اگر کوئی ساتھی احباب اسی دھرنے کی پریس ریلیز پڑھ رہا ہو تو اسے اظہارِ ناراضگی میں پھاڑ دے تو تکلیف نہیں تو اور کیا ہوگا؟
کل جب امریکی ریاست اپنی آزادی کا جشن منا رہی تھی اور امریکا کا ہر اک شہری ٹوئیٹر پر آزاد ریاست کا ٹرینڈ چلا رہا تھا ٹھیک اسی وقت ایک پاکستانی پایل دیوی کا اسکرپٹڈ بیان سن کر پاکستان کی اقلیتی برادری شرمسار ہو رہی تھی۔
جس لڑکی کو انتیس جون کو کامران نامی ایک شخص جو اس کو پڑھاتا بھی تھا، اور اکثر ہمارے سماج میں اساتذہ کو پیغمبرانہ لقب دیا جاتا ہے وہ ہی شخص اسے زبردستی گھر سے اٹھاتا ہے اور ٹھیک چار پانچ دنوں کے بعد اسی روایتی تسلسل میں ایک بیان سامنے آتا ہے ” میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کر رہی ہوں مجھے کسی نے زبردستی نہیں کی میں عاقل بالغ ہوں اور اپنا بھا بٌرا خوب جانتی ہوں“.
ایک بات تو واضع تھی کہ جب لڑکی کورٹ میں بیان دے رہی تھی تو بہت گھبرائی ہوئی تھی، اس کو کیا ہوا تشدد اس کی پیشانی اور ہاتھوں پہ صاف ظاہر تھا۔ باقی تحقیقات اگر ذہنی امراض کے ماہر یا پھر میڈیکل رپورٹس بتائیں تو کافی کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔ مجھے سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جس لڑکی نے اپنا مذہب بھی ٹھیک سے نہیں پڑھا تو وہ کیسے دوسرے مذہب کی بھینٹ کر سکتی ہے اور اس متاثر ہو سکتی ہے اور جو بھی لڑکی متاثر ہو رہی ہے وہ کسی پاک پویتر پانچ وقت کے نمازی سے نہیں ہوتی ان کو آوارہ اور تھالی میں چھید کرنے والے لوگ ہی کیوں ملتے ہیں؟
ہم جب مزاحمت بھی کرتے ہیں تو یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کا ملک نہیں ہے، آپ جہاں سے آئے ہو واپس وہیں چلے جاو۔ اس کا مطلب ہم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے اغواء کاروں سے تحفظ کے لیے زبرسدتی مذہب تبدیلی کے خلاف اپنی یکجہتی کا بھرپور اظہار بھی نہ کریں؟
واقعی ان کی بات شاید درست ہے، جس دھرتی سے ہمارا تعلق ہے وہ صدیوں سے مذہبی ہم آہنگی، رواداری اور سیکیولرازم کے نام سے جانی جاتی ہے مگر زمینی حقائق ان سے بہت مختلف ہیں۔
جہاں امریکا میں آزادی کے لیے شاید اتنے لوگ اکٹھا نہیں ہوئے تھے، اس سے کئی زیادہ لوگ کل کی ریلی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ اس ریلی میں مرد تو تھے ہی پر عورتوں نے بھی بھرپور حصہ لیا، جس نے یہ صاف بتا دیا کہ وہ صرف حیدر آباد ہی نہیں بلکہ پوری سندھ کا سب سے بڑا اقلیت برادری کی طرف سے ہجوم تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حقوق کے بنیاد کیا ہیں اور حقوق اصل میں کس کے لیے ہیں۔
وزیرِ اعظم صاحب کا کہنا تھا کہ میری حکومت میں اقلیتی برادری خود کو محفوظ سمجھے، پر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آپ کی حکومت میں جو واقعات ہوئے ہیں وہ شاید پہلے کبھی نہ ہوئے۔
بندہ پرور کوئی خیرات نہیں
ہم وفاؤں کا صلہ مانگتے ہیں
(ساغر صدیقی)